نئی دہلی:بھارت میں گائے اور بیل کے ذبیحے کے حوالے سے مودی حکومت کے سخت رویے کے سبب چمڑے اور گوشت کی صنعت متاثر ہو رہی ہے۔ ملک میں جوتا سازی کے پیشے سے منسلک کئی افراد اس تناظر میں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔جرمنی نشریاتی ادارے کے مطابق بھارت کے شہر آگرہ کی عقبی گلیوں میں جہاں صدیوں سے جوتے بنانے کا کام کیا جاتا تھا۔
اب چھوٹے تاجر اپنے ہاں کام کرنے والوں کو ملازمتوں سے فارغ کر رہے ہیں۔ جوتا سازی کے یہ پیشہ ور افرادبھارت میں مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔تین سال قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے بر سراقتدار آنے کے بعد سے دائیں بازو کے انتہا پسند خیالات رکھنے والے ہندووں کی جانب سے گائے کو ذبح کرنے کے معاملے پر زیادہ سختی دیکھنے میں آئی ہے۔
ہندو اکثریت کے ملک بھارت میں گائے کو مذہبی طور پر مقدس سمجھا جاتا ہے اور ملک کی متعدد ریاستوں میں اس جانور کو ذبح کرنے پر پابندی عائد ہے جبکہ کچھ ریاستوں میں تو یہ باقاعدہ جرم ہے جس کی سزا عمر قید ہے۔بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں رواں برس مارچ میں گائے کے غیر لائسنس شدہ مذبح خانوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔
جس سے اس کاروبار کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ گزشتہ ماہ مودی حکومت نے گائے کے ساتھ ساتھ بیل کے ذبیحے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ بیل سے گوشت اور چمڑا حاصل کیا جاتا ہے۔اس پابندی سے گوشت کے کاروبار سے منسلک مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندووں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
بھارت میں قصائیوں کی مسلم کمیونٹی کے نمائندے عبد الفہیم قریشی نے کہاکہ اتر پردیش میں گوشت کی بعض مارکیٹوں میں جہاں گزشتہ برس تک ایک ہزار مویشیوں کا کاروبار ہوتا تھا اس سال کم ہو کر صرف سو مویشی تک رہ گیا ہے۔پیداوار میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی دو غریب برادریوں کے لیے جن میں مسلمان اور نچلی ذات کے ہندو شامل ہیں۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔