اسلام آباد: پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ ریچارج پاکستان پروجیکٹ کے لیے 77.8 ملین ڈالر کی فنڈنگ حاصل کر لی گئی ہے جو کہ آج تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ یہ سرمایہ کاری سیلاب کے خطرات کو کم کرنے اور سندھ طاس میں پانی کے ریچارج کو بڑھانے میں مدد کرے گی، جس سے 70 لاکھ سے زائد لوگوں کی موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جدوجہد کو تقویت ملے گی اور کمزور ماحولیاتی نظام کی حفاظت بھی کی جائے گی ۔
ریچارج پاکستان پروجیکٹ کا مقصد سندھ طاس میں سیلاب اور خشک سالی کے خطرات کو کم کرکے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے پاکستان کی جدوجہد کو بڑھانا ہے، جو ایشیا کا سب سے بڑا طاس ہے جو دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں سے بہہ جاتا ہے۔ اس منصوبے کو سات سال کی مدت میں نافذ کیا جائے گا، جس میں موسمیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ملک کی صلاحیت کو تقویت دینے پر توجہ دی جائے گی۔ اس منصوبے کے لیے 77.8 ملین ڈالر کی فنڈنگ میں گرین کلائمیٹ فنڈ سے 66 ملین ڈالر، USAID سے 5 ملین ڈالر، کوکا کولا فاؤنڈیشن سے 5 ملین ڈالر، اور ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (WWF) پاکستان سے 2 ملین ڈالر شامل ہیں۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ اس 7 سال کے طویل پروجیکٹ کو مجموعی طور پر 77.8 ملین ڈالر کی فنڈنگ ملی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ اس پراجیکٹ سے 2022 کے تباہ کن سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے خطوں کو خاص ظور پر مدد ملے گی جس میں 1700 افراد ہلاک ہوئے، 33 ملین افراد متاثر ہوئے، اور حکومتی اندازوں کے مطابق معیشت کو 30 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔
جی سی ایف کی کمیونیکیشن ٹیم کی ایک اہلکار ڈیبورا ہانگ نے کہا کہ یہ منصوبہ سندھ طاس میں چار پروجیکٹ سائٹس پر ماحولیاتی نظام پر مبنی اور گرین انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرے گا۔ہانگ نے یہ بھی کہا کہ یہ کمزور کمیونٹیز اور ماحولیاتی نظام پر بڑھتے ہوئے شدید سیلاب اور خشک سالی کے اثرات کو کم کرے گا. انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے پاکستان کے سندھ طاس کے آس پاس رہنے والے 70 لاکھ سے زائدافراد کو بالواسطہ فائدہ پہنچے گا۔
ہانگ کانگ کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد ڈیرہ اسماعیل خان میں 14,215 ہیکٹر تباہ شدہ واٹرشیڈز کو بحال کرنا ہے، 34 کلومیٹر کے بہاؤ کے راستوں کے ساتھ ساتھ رَمَک واٹرشیڈ اور منچھر جھیل میں نالیوں کی صفائی اور بحالی ہے۔
پاکستان میں اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے والی ایجنسی ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سی ای او حماد نقی خان نے کہا کہ زیادہ تر سرگرمیاں، خاص طور پر فیلڈ میں کی جانے والی سرگرمیاں صوبائی آبپاشی، جنگلات اور جنگلی حیات کے محکموں کے ذریعے کی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اس منصوبے کو تیار کر رہے تھے، تو ہماری وفاقی اور صوبائی فلڈ کمیشنز، صوبائی محکمہ آبپاشی کے ساتھ خاص طور پر سائٹس کے انتخاب میں بہت اچھی شراکت داری تھی۔ اس پراجیکٹ کے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی کے تحت ایک پراجیکٹ اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کی گئی، جس میں وزارت آبی وسائل اور دیگر متعلقہ محکموں کے اراکین شامل تھے اور وہ بجٹ اور سرگرمیوں کی منظوری دے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سات سالہ طویل منصوبہ دو سال بعد اثرات دکھانا شروع کر دے گا۔