آزاد کشمیر میں ایک انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا ہے ان کے والد اور تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم نوازشریف کا بیانیہ اس قدر معقول اور ملک و قوم کے حقیقی مفادات کے ساتھ مطابقت رکھنے والا ہے کہ جلد وہ وقت آئے گا جب بقیہ افراد قوم کے علاوہ ادارے بھی اس کے قائل ہو جائیں گے اور اس بیانیے کی افادیت کو تسلیم کر لیں گے… اس بیان پر اچھا خاصا ردعمل آیا… کئی قسم کی چہ میگوئیاں ہوئیں… وفاقی وزراء نے مذاق اڑایا… دانشوروں نے اپنے اپنے رجحان فکر کے مطابق بیان کے محرکات کو سمجھنے اور اس کی بابت اپنے نقطہ نظر کو قارئین یا ناظرین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی… یہ بات خاصی حیران کن تھی کہ اداروں کے بارے میں اس سیاستدان کے بیانیے کو جلد اپنا لینے کی پیش گوئی کی جائے جو ان کی نگاہوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران سب سے زیادہ مطعون چلا آ رہا ہے… اسے اقتدار سے ہٹایا گیا… کرپشن کے کئی مقدمات میں پھنسا کر رکھ دیا… کسی نہ کسی بہانے ملک سے باہر بھجوا دینے کی سعی کی گئی… دیارغیر میں بیٹھا وہ اداروں کی امور مملکت پر آئین مملکت کو نظرانداز کرتے ہوئے بالادستی اور 2018 کے انتخابات میں لائی گئی سول حکومت کے خلاف بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے… ووٹ بنک اس کا جو مضبوط تر ہو چکا ہے بالادست قوتوں اور ان کے پسندیدہ سیاستدانوں کے لیے اپنی جگہ سردرد کا باعث ہے… جماعت اس کی ٹوٹی نہیں تمام تر داخلی اختلافات کے باوجود متحد ہے… بیٹی اس کی آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران حیران کن حد تک ایک کے بعد دوسرا بڑا عوامی جلسہ کر رہی ہے… یعنی نوازشریف جو لمحہ موجود کے اندر جلاوطن ہونے کے باوجود بھی اداروں اور ان کے حامی سیاستدانوں کے لیے بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اس کا بیانیہ آنے والے کل میں ریاستی اداروں کے لیے کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے… یہ مریم نواز کی خوش فہمی ہے… ایسی انہونی ہے جو اس نے اپنے سامنے جلسے میں آئے ہوئے جم غفیر کو دیکھ کر جوش خطابت میں کہہ ڈالی ہے… یا اس نے اپنے علم و معلومات کی بنا پر آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر دکھانے کی کوشش کی ہے… کیونکہ اس حقیقت سے بہرصورت انکار نہیں کیا جا سکتا جب سے نوازشریف کو مرضی کے عدالتی فیصلے کی بنیاد پر برطرف کیا گیا ہے اور 2018 میں اپنی منشاء کے مطابق چنائو کا انعقاد کر کے من پسند لیڈر کو عنان حکومت سونپی گئی ہے ملک ایک کے بعد دوسرے بحران کی زد میں چلا آ رہا ہے… معیشت کی کشتی حکمرانوں کے تمام تر دعووں کے باوجود ڈانوا ڈول ہے… سیاست میں استحکام نہیں… پارلیمنٹ قانون سازی کی بجائے گالم گلوچ کا اکھاڑہ بنی ہوئی ہے… خارجہ پالیسی کے میدان میں پے در پے ناکامیوں کا یہ عالم ہے کشمیر ہاتھوں سے نکل چکا ہے… مودی نے اب تک مذاکرات تو درکنار ہمارے وزیراعظم بہادر کی تمام تر کوششوں کے علی الرغم ان کے ایک ٹیلیفون کا جواب دینا پسند نہیں کیا… امریکہ کے نئے صدر جوزف بائیڈن جب سے وہائٹ ہائوس میں متمکن ہوئے ہیں یعنی 21 جنوری 2021 سے تا ایں روز انہوں نے عمران خاں سے ہیلو ہائے کی رسمی بات تک گوارا نہیں کی حالانکہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کو اپنی افواج کے انخلا کی بابت جس بحران کا سامنا ہے اس میں اسے پاکستان کی سب سے زائد ضرورت ہے… شاید اس لیے کہ امریکی خیال کرتے ہوں گے کہ ریاست پاکستان میں فیصلہ کن پوزیشن اداروں کو جن سے ان کا دیرینہ تعلق رہا ہے حاصل ہے نا کہ عمران خان نامی وزیراعظم کو… چین ہمارا سب سے قریبی اور بااعتماد دوست ہے… سی پیک کے منصوبے کی تکمیل کی خاطر پاکستان کا مسلسل تعاون درکار ہے… اس کے باوجود اس کی جانب سے ایک دو ارب ڈالر کی اداد تو ہماری جھولی میں ڈال دی گئی… لیکن نواز عہد کے برعکس چین کی ایک بھی قابل ذکر حکومتی شخصیت ان کے صدر اور وزیراعظم یا وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کرنا مناسب خیال نہیں کیا… سعودی عرب ابتدا میں بہت خوش تھا لیکن اب اس کی ناراضی بھی ہمارے وزیراعظم سے دور نہیں ہو پا رہی… برطانیہ جس پر عمران خان کو بہت مان تھا اس نے جوانی کا بہترین دور اس ملک میں بسر کیا ہے… وہاں کے اونچے طبقوں سے گہرے تعلقات ہیں… یہاں تک کہ اس کی سابقہ سسرال بھی اس ملک سے ہے… دونوں بیٹے ان کے یہاں پرورش پا رہے ہیں… اس کے وزیراعظم بورس جانسن نے ہمارے صاحب بہادر کو ایک دن کے دورے کی دعوت دی کہ پسند کریں تو آ کر کرکٹ میچ دیکھ لیں… لیکن واضح کر دیا گیا ان کے اعزاز میں کوئی سرکاری تقریب منعقد نہ ہو گی… عمران خان کو اس ہیت کذائی کا سن کر اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا… پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیراعظم یا
سربراہ مملکت کو اس قدر ناکام خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا… اس عالم میں شائد بالادست طبقوں یا ادارے چلانے والوں کے دماغوں میں یہ خیال در آیا ہوا ہو کہ نوازشریف کا بیانیہ قبول کر لیا جائے اور مریم نے اس کی سن گن پا کر مذکورہ بالا بیان دے دیا ہو…
لیکن معاملہ اتنا آسان نہیں … ادارے یا بالادست حکمران لوگ نوازشریف کے بیانیے کو ہضم کرنے والے نہیں… وہ ان کا حریف اوّل ہے… مقابلے کی ٹھان رکھی ہے… اگر اس کا ووٹ بنک مضبوط ہے تو اوپر والوں کو اس کی پروا نہیں… آخر کبھی ذوالفقار علی بھٹو کا ووٹ بنک بہت مضبوط تھا… چہار دانگ عالم میں اس کی پاکستان کے عوام میں مقبولیت کی شہرت تھی… ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا… بھارت سے ہزاروں کی تعداد میں ہمارے فوجی چھڑا کر لایا… غلطیاں بطور وزیراعظم اس سے بھی بہت ہوئیں لیکن ایسا کوئی جرم سرزد نہ ہوا کہ ننگا مارشل لاء لگا کر بالواسطہ قتل کے الزام پر منقسم فیصلے کی بنیاد پر تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا… مگر اس کے ساتھ اداروں کی حکومت کی جانب سے یہ سلوک کیا گیا… ووٹ بنک اس کے باوجود اس کا اپنی جگہ قائم رہا… مقبولیت میں کمی نہ آئی… تاہم آہستہ آہستہ اس کے اثرات کو اندرون صوبہ سندھ تک محدود کرنے میں کامیابی حاصل کر لی گئی… پنجاب جیسے بڑے اور سیاسی لحاظ سے بااثر ترین صوبے میں جہاں کبھی اس کا طوطی بولتا تھا اس کی جماعت کو سیاسی لحاظ سے اکھاڑ پھینکا گیا… آج زرداری صاحب اور بلاول بھٹو کی ہزار کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس لینے میں ناکام نظر آتی ہے… اسی طرح اداروں کے اندر یہ سوچ پائی جاتی ہے نوازشریف کے اثرات کو بھی ایک تدریجی عمل کے ساتھ ختم کیا جا سکتا ہے… جب یہ سب کچھ ’ہماری‘ دسترس میں ہے تو اس کے بیانیے کو کیوں گلے لگا لیں… جس لباس کو اتنی محنت اور تگ و دو کے بعد حقارت کے ساتھ جسم سے اتار پھینکا تھا اسے دوبارہ زیب تن کر کے ریاست پاکستان پر اپنی بالادستی پر حرف کیوں آنے دیں… تو کیا مریم نواز نے اداروں کے مزاج کو سمجھے بغیر اتنی بڑی بات کہہ دی ہے… مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے نواز کا بیانیہ قبول کیا جائے یا نہیں… جس بحران کا ہمارا ملک اور قوم کو شکار ہیں… جن پے در پے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے… ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کوئی تو مختلف طرز عمل اختیار کرنا پڑے گا… رائج الوقت بیانیہ جسے آپ اداروں اور عمران خاں کا مشترکہ بیانیہ کہہ لیجئے سخت ناکام ثابت ہوا ہے… دو سال عمران خان کی حکومت کو باقی رہ گئے ہیں… جو بیانیہ پہلے تین برسوں میں ملک و قوم کا کچھ نہیں سنوار سکا وہ آخری دو سالوں میں کسی کا کیا بگاڑ لے گا… لہٰذا نوازشریف نہ سہی ایک نئے جاندار اور ملک و ملت کے حقیقی مفادات کے ساتھ مطابقت رکھنے والے بیانیے کی اہل وطن کو شدید ضرورت ہے… وہ بیانیہ کیا ہو سکتا ہے… نوازشریف تو ایک متنازع سیاستدان ہے… اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو تھا… ملک و ملت اور ہماری پون صدی کی تاریخ کی متفق علیہ شخصیت بلاشبہ بانی مملکت قائداعظم محمد علی جناحؒ ہیں… ان کا بھی ایک بیانیہ جس کے خطوط اور ڈھانچہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں… پھر کیوں نہ سب مل کر اسے حرز جان بنا لیں… ادارے بھی، سیاستدان بھی اور منتخب پارلیمنٹ بھی… تاکہ پوری قوم کے اندر یکسوئی او یکجہتی کی ایک نئی لہر ابھر آئے… اور اس کی مضبوط رسی کو پکڑ کر ہم اگلی اور کامیابی و خوشحالی کی منزل کی جانب روانہ ہو جائیں…
قائداعظمؒ کے بیانیے کا پہلا جزو لاینفک یہ ہے جیسا کہ قیام پاکستان کے لیے ان کی کامیاب جدوجہد سے ظاہر ہوتا ہے تمام بنیادی فیصلے بند کمروں کے اندر بیٹھ کر خفیہ طور پر نہیں بلکہ کھلے عام عوامی اجتماعات منعقد کر کے کثرت رائے کے ساتھ کیے جائیں… مسلمانان برصغیر کے لیے ایک علیحدہ اور آزاد مملکت کے قیام کا مطالبہ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجتماع منعقدہ 23 و 24 مارچ کو منٹو پارک لاہور میں برصغیر کے کونے کونے سے آئے ہوئے مسلمانوں اور ان کی لیڈرشپ کے سامنے ایک واضح قرارداد کی شکل میں پیش کیا… اس پر بحث ہوئی بالآخر اسے عوامی سطح کی منظوری دی گئی… یوں یہ مطالبہ اگلے پانچ سال کی خالص عوامی جدوجہد کے دوران مسلمانان ہند کے بچے بچے کی آواز بن گیا… لیکن اس آواز کو اور یہ مطالبہ محض عوامی جلسوں اور اجتماعات تک محدود نہ رکھا گیا خواہ وہ کتنے بڑے ہوتے تھے… اسے 1945-46 کے انتخابات کے دوران باقاعدہ جمہوری انداز میں ووٹروں کے سامنے رکھ کر اس پر ان کی رائے حاصل کی گئی… جیسا کہ سب جانتے ہیں برصغیر کے مسلمان ووٹروں نے بیک آواز ہو کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیئے… یہ شفاف اور آزادانہ چنائو تھا… ان کے جائز ترین ہونے پر کسی کو اعتراض نہ تھا… حق یہ ہے اگر 1945 کے انتخابات نہ ہوتے یا ان کے آزادانہ ہونے پر کسی شبہے کا اظہار کیا جاتا… تو پاکستان بننے کی منزل اتنی قریب نہ آتی… اس دوران کسی ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی جرنیل کی خدمات حاصل نہ کی گئیں نہ سیاسی مقصد کے حصول کے لئے ڈنڈے یا بندوق کے استعمال کو جائز قرار دیا گیا… چنانچہ قائد کے بیانیے کا دوسرا جزو بغیر کسی مداخلت یا سیاسی انجینئرنگ کے ہر لحاظ سے آزاد اور غیرجانبدارانہ انتخابات ہیں… اس کے بعد مملکت خداداد کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھاتے ہوئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒنے واضح تر الفاظ میں کہا وہ دستور پاکستان جسے ابھی تیار اور نافذ ہونا ہے اس کی سختی کے ساتھ پابندی کریں گے… یعنی جو دستاویز ابھی تیار نہیں ہوئی نہ اسے نافذ کیا گیا لیکن اسے بہرصورت نئی مملکت کا دستور اساسی بنیاد بننا تھا اس کے الفاظ اور روح کی پیروی کو بانی مملکت نے اپنے اوپر یا بعد میں آنے والے کسی بھی حکمران کے لیے لازم قرار دیا… قائد کے بیانیے کا اگلا جزو ان کے اس سیاسی و جمہوری شعور کا عکاس ہے کہ فوج اور اس کے جرنیلوں کا بنیادی فریضہ ملک کی سرحدوں کا دفاع یقینی بنانا ہے نا کہ امور سیاست و مملکت میں مداخلت… اس کا اظہار انہوں نے نہایت واضح اور محکمانہ انداز میں اس وقت کیا جب 1948 میں کوئٹہ کے ملٹری سٹاف کالج میں سینئر فوجی افسروں سے خطاب کے دوران انہیں احساس ہوا کہ ہمارے سینئر فوجی افسروں کو ابھی آئین مملکت کے بنیادی اجزاء سے واقفیت بہم پہنچانا ضروری ہے… تاکہ ان پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو جائے کہ ان کا فریضہ آئین کی پابندی کرتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کی پالیسیوں کو پوری طرح اپنا کر ان کی پیروی میں ملکی سرحدوں کے دفاع کا لازمی فریضہ ادا کرنا ہے تاکہ عسکری طاقت کے بل بوتے پر امور ریاست پر تسلط جمانا … آج بھی اداروں سمیت پوری قوم کے افراد کار کو بانی مملکت کے اس بیانیے کو حرز جان بنا لینے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ملک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نت نئے بحرانوں سے نکالنے کی سبیل پیدا کی جائے نہ کہ اسے ہر وقت کسی نہ کسی طوفان کی زد میں رکھا جائے۔