انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردگان نے مغربی ممالک پر منافقت کا الزام عائدکرتے ہوئے کہا ہے کہ ان ممالک نے ترکی کی دوستی کو دھوکا دیا اور یہ انتظار کرتے رہے کہ بغاوت کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، کچھ ممالک نے تو فتح اللہ گولن کے ساتھیوں کو پناہ تک دے دی۔
برطانوی اخبار گارڈین میں چھپنے والے مضمون میں انھوں نے کہا ان ممالک نے ترکی کی دوستی کو دھوکا دیا اور یہ انتظار کرتے رہے کہ بغاوت کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔انھوں نے کہ کچھ ممالک نے تو فتح اللہ گولن کے ساتھیوں کو پناہ تک دے دی۔انھوں نے بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں پر کی گئی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناکامی جمہوریت کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
ترکی میں گذشتہ برس ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کا ایک سال پورا ہونے کے موقعے پر مختلف تقریبات منعقد کی گئیں۔ اس واقعے میں کم از کم ڈھائی سو افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔فوج کے ایک حصے نے صدر رجب طیب اردگان سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔اس کے بعد سے حکومت نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے نکال دیا ہے اور یہ سلسلہ آج ایک برس پورا ہونے کے بعد بھی جاری ہے۔
ترک حکومت اس الزام کو مسترد کرتی ہے کہ یہ برطرفیاں سیاسی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ بغاوت کے حامیوں کو نکال باہر کرنا چاہتی ہے۔تاہم ان برطرفیوں اور 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کی گرفتاریوں نے حزبِ اختلاف کو مزید تحریک دے دی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اردوغان اس بغاوت کے بعد ابھرنے والے جذبات کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مخالفین کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں۔گذشہ ہفتے لاکھوں افراد نے استنبول میں اکٹھے ہو کر حکومت کے خلاف 450 کلومیٹر طویل 'انصاف مارچ' میں حصہ لیا تھا۔