لاہور : آج اردو زبان کے معروف غزل گو اور سلام گو شاعر محسن نقوی کی 29 ویں برسی منائی جارہی ہے، جنہوں نے اپنے کلام میں انسانی جذبات اور رویوں کی گہرائیوں کو اُجاگر کیا۔ محسن نقوی کا کلام آج بھی ادب کے شوقین افراد کے دلوں میں زندہ ہے اور ان کی شاعری میں جمالیاتی اور روحانی پہلوؤں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
محسن نقوی 5 مئی 1947 کو ڈیرہ غازی خان کے محلّے سادات میں پیدا ہوئے، اور ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا۔ شعر کہنے کے لیے وہ "محسن" تخلص استعمال کرتے تھے۔ بچپن سے ہی محسن نقوی نے دنیاوی اور مذہبی تعلیم کا اہتمام کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں خصوصی دلچسپی رکھی۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو میں ایم اے کیا اور اسی دوران ان کا پہلا شعری مجموعہ "بند قبا" شائع ہوا۔
محسن نقوی اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔ اس کے بعد، انہوں نے ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنائی اور مختلف کالم نگاروں کے طور پر ہلال اور امروز جیسے اخبارات میں بھی کام کیا۔ گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان میں بھی ان کی ادبی خدمات نے انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ کالج میں "فکر جدید" کے ایڈیشن کے شائع ہونے کے بعد محسن نقوی کا نام پاکستان کے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گیا۔
محسن نقوی نے 1979 میں پاکستان پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی اور سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور بے نظیر بھٹو کے لیے ایک مشہور نظم "یا اللہ یارسول، بے نظیر بے قصور" بھی لکھی تھی۔
محسن نقوی کے اہم اشعار کے مجموعے میں "عذابِ دید، خَیمۂِ جاں، برگِ صِحرا، بندِ قبا، مَوجِ ادراک، طُلُوعِ اشک، فُراتِ فکر، ریزۂِ حرف، رختِ شب، رِدائے خواب اور حقِ ایلیا" شامل ہیں۔ ان کا مرثیہ اردو شاعری کا ایک خاص پہلو تھا، جس میں انہوں نے غم اور درد کی گہرائیوں کو خوبصورتی سے بیان کیا۔
1994 میں محسن نقوی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ) سے نوازا گیا۔ لیکن افسوس کہ 15 جنوری 1996 کو انہیں نامعلوم دہشت گردوں نے حملہ کرکے ہم سے جدا کردیا۔ ان کے زخمی ہونے کے بعد آخری شعر یہ تھا:
"لے زندگی کا خمس علی کے غلام سے
اے موت آ ضرور مگر احترام سے
عاشق ہوں اگر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا میں اپنے امام سے"
محسن نقوی کی شاعری نے اردو ادب میں ایک نئی جہت کو جنم دیا اور ان کا کلام ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔