فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس: اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟آئینی بینچ

01:22 PM, 15 Jan, 2025

نیوویب ڈیسک

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت  ہوئی۔ سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ اگر سانحہ اے پی ایس میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو ان دہشت گردوں کا ٹرائل فوجی عدالت میں کیوں نہیں ہوا؟ اور فوجی عدالتوں میں دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کیوں کرنی  پڑی؟

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد بلال بھی شامل ہیں۔

وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کا فیصلہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے اور اگر جرم کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہو تو ٹرائل فوجی عدالت میں جائے گا۔ تاہم، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر اے پی ایس حملے میں  گٹھ جوڑ موجود تھا تو پھر فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے بعد ملٹری عدالتوں میں دہشت گردوں کے ٹرائل کی اجازت دی گئی تھی، جس کے تحت بعض جرائم کو فوجی عدالتوں کے دائرے میں لایا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت، اگر کسی جرم کا تعلق فوجی امور سے ہو، تو وہ فوجی عدالت میں ٹرائل ہوگا۔ عدالت نے خواجہ حارث کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں