اس وقت پنجاب کا نیا سیاسی منظر نامہ اس قدر دھندلا ہے کہ کوئی واضح پیش گوئی کرنا خاصا مشکل ہے لیکن ایک بات تو کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہو کر کہی جا سکتی ہے کہ اگر، جس طرح کہ امید کی جا رہی ہے، مستقبل قریب میں عام انتخابات یا صرف پنجاب اسمبلی کے لیے انتخابات ہوتے ہیں تو اس میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) ایک واضح خسارہ میں رہیں گی۔ ہاں البتہ کچھ مذہبی جماعتوں (تحریک لبیک پاکستان اور حافظ سعید صاحب کی ملی مسلم لیگ) کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی ادارہ یا سیاسی پارٹی زوال کا شکار ہو جائے تو پھر اس کا دوبارہ ابھرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ ماہرین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ کسی ڈوبے ہوئے ادارے کو دوبارہ فعال بنانے کی کوششوں پر جتنی توانائیاں اور وسائل درکار ہوتے ہیں اس سے بہت کم میں کوئی نیا ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے یہ تمام تجزیے اور اندازے درست بھی ہوں لیکن ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیوں نے اسے کسی نہ کسی حد تک غلط ثابت کر دکھایا ہے۔
چند برس قبل ہم نے نواز لیگ کے گراف کو زمین کے ساتھ لگا ہوا پایا کیونکہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں اس پارٹی کا روح رواں اپنے سارے سارا خاندان کے ہمراہ بیرون ملک کوچ کر گیا یا بھیج دیا گیا۔ وجہ جو بھی رہی ہو حقیقت یہ ہے کہ پارٹی ایک لمبے عرصے تک لاوارث اور یتیم رہی۔ اس وقت تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ جس طرح میاں نواز شریف ایک ڈکٹیٹر سے ڈیل کر کے ملک چھوڑ کر چلے
گئے ہیں اس کے نتیجہ میں شائد اب پاکستان کی سیاست میں ان کا کردار صفر ہو جائے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ میاں نواز شریف کے خاندان کی واپسی کے بعد یہ پارٹی نہ صرف دوبارہ فعال ہوئی بلکہ اس نے صوبہ پنجاب اور مرکز میں حکومتیں بھی قائم کیں۔
اگرسیاسی ویژن، جدوجہد اور اعلیٰ قیادت کی قربانیوں کا ذکر کیا جائے تو بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی ملک کی باقی دو اہم ترین پارٹیوں یعنی پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) سے کہیں آگے نظر آتی ہے لیکن گزشتہ کئی سال سے اس کی انتخابی سیاست کا گراف نیچے کی طرف ہی گیا ہے۔ اور جس طرح ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (نواز) کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کہا جاتا تھا ٹھیک اسی طرح پیپلزپارٹی کے زمین دوز ہو جانے کے بارے میں بھی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ اس قسم کا تجزیہ پیش کرنے والے قابل احترام احباب کی رائے اپنی جگہ لیکن میرے خیال کے مطابق، اگر عام انتخابات کسی بھی وجہ سے غیر معمولی تاخیر کا شکار نہ ہوئے تو، پیپلز پارٹی(ان تما م تجزیہ کاروں کو غلط ثابت کرتے ہوئے جو کہتے تھے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست کاسورج غروب ہو چکا ہے اور یہ اب صرف اندرون سندھ کی ایک جماعت بن کر رہ گئی ہے)ملک کی سیاست اہم کردار ادا کرنے جا رہی ہے۔
اس وقت پاکستان کی سیاست میں اگر پیپلزپارٹی کی اہمیت بڑھی ہے تو اس کی اہم وجہ آصف زرداری صاحب کی ملکی سیاست میں جادوگریاں اور مفاہمت کی سیاست تو ہیں ہی لیکن گزشتہ کچھ عرصہ میں بلاول بھٹو نے جس سیاسی بردباری اور پختگی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال بھی کم ہی ملتی ہے۔ ویسے تو اپنے ملک کے تمام ہی سیاستدانوں کے صحت اور زندگی کے لیے دعا ہے لیکن اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے سیاست کے تقریباً تمام ہی اہم کردار وں کی عمر ستر سال سے زائد ہے۔
نئی نسل کے جو لوگ اب تک میدان میں آئے ہیں ان میں شامل مریم نواز، حمزہ شہباز، مونس الٰہی اور دیگر میں سے کسی کی بھی سوچ، رویے اور کارکردگی ایسی نہیں رہی کہ ان میں سے کسی ایک کو پاکستانی کی مستقبل کی سیاست کا ہیرو قرار دیا جا سکے۔ ان کے مقابلہ میں اگر بلاول زرداری کو دیکھا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کس طرح اس نے قومی معاملات پر ایک واضح اور مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا ہے، نوجوان ہونے کے باوجود کبھی جذبات کی رو میں بہہ کر نہ کوئی بات کی ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی بنائی ہے۔ حتیٰ کہ اس نے ان تھڑے باز سیاستدانوں کی نامعقول باتوں کا بھی جواب نہیں دیا جو اس کی شخصیت کے حوالہ سے انتہائی فضول گفتگو کرتے رہے ہیں۔
غرض پاکستان کی سیاست میں مستقبل قریب میں اور مستقبل بعید میں پیپلزپارٹی کا کردار بہت اہم نظر آتاہے۔ خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی سندھ میں تو حکومت بنائے گی ہی لیکن مرکز اور پنجاب میں بھی اس قدر سیٹیں جیتنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی کہ اس کے تعاون کے بغیر کوئی بھی سیاسی پارٹی حکومت بنانے کو پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ رہی بات مستقبل کی سیاست میں بلاول زرداری کے کردار کی تو چونکہ نئی نسل کے تقریباً تمام ہی سیاستدانوں میں شائد کوئی بھی ان سے زیادہ تو خیر دور کی بات ہے ان کے برابر بھی سیاسی ویژن نہیں رکھتا اس لیے بلاول کا کردار اہم ترین ہو گا۔ ویسے تو پاکستان کی سیاست کے بارے میں کسی بھی قسم کی پیش گوئی کرنا ناممکن سی بات ہے لیکن پھر بھی اگر سیاسی جمع تفریق اور حساب کتاب کو دیکھا جائے تو ملک کے اہم ترین عہدہ کے لیے بلاول زرداری سے بہتر کوئی آپشن نظر نہیں آتی۔