معاشی سیاسی حالات کی ابتری نہایت پریشان کن ہے۔ ذمہ دار یقینا قوم کے سبھی مقتدر طبقات ہیں۔ ان کی اپنی بے محابا دولت، ملک چھوڑ جانے کی سہولت اور باہر عیش وراحت کے اسباب کی فراوانی انہیں فرانسیسی انقلاب سے پہلے فرنچ شہزادی والی ذہنیت دے چکی ہے۔ ’کھانے کو روٹی میسر نہیں (آٹا ندارد) تو کیک کیوں نہیں کھا لیتے‘ (یہ ٹٹ پونجیے)؟ ہمارے والے کہتے ہیں: عوام مرغی نہ کھائیں، چائے چھوڑ دیں۔ ہر مہنگی چیز چھوڑ کر سستی سموگ کھائیں؟ آٹے کے لیے لامنتہا قطاروں اور بھگدڑ میں مر جانے والے گھر کے کفیل کی فکر کون کرے گا؟ خوش باش طبقہ موسیقی کی تانوں میں کراچی میں سالانہ فوڈ فیسٹول جوش وخروش سے منا رہا ہے۔ یوں بھی وہاں آٹا کم اور گوشت زیادہ فراواں ہوتا ہے جہاں ڈھائی لاکھ افراد (فرنچ شہزادی مزاج) متوقع تھے۔ (آخری دن موسیقی اور رقص کے بیچ ہلڑ بازی، خواتین پر ہراسانہ حملے ہمیشہ کی طرح انجام ٹھہرا۔)
چودھری پرویز الٰہی کی بھی سنیے۔ گجرات یونیورسٹی میں خطاب کرتے فرمایا کہ ورلڈ بینک کے اشتراک سے دو یا کم بچوں والے خاندان کو تحدید آبادی کارنامے پر (بطور انعام) 60 ہزار روپے راشن کے لیے ماہانہ دینے کا پروگرام بن رہا ہے، جن کے زیادہ بچے ہوں وہ بھوک کی سزا کاٹیں یا ”فالتو بچے“ بحق سرکار ضبط ہوں؟ اگرچہ یہ ’احساس پرواگرام‘ کے بینر تلے ہوگا! آبادی پر ناگواری اور سزا کا ’احساس‘ مایہ نازبرطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل کی بھارت پر حکمرانی یاد دلاتا ہے۔ 1943ء میں بنگال کے 30 لاکھ لوگ قحط میں مر گئے۔ چرچل نے بھارت کو گندم کی فراہمی روک کر یورپیوں کے لیے گوداموں میں ٹنوں گندم ذخیرہ کیے رکھی، یہ کہہ کر کہ یہ خرگوشوں کی طرح بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟ ایک دو بچوں والے برگر خاندان تو راشن طلب ہوتے بھی نہیں۔ وہ جو زیادہ بچے پیدا کرکے ملک کو افرادی قوت فراہم کرتے ہیں، قیمتی زرمبادلہ ملکی معیشت مضبوط کرتا ہے، انہیں حقیر کرنا، سزا دینا مطلوب ہے؟ تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو (حکمرانی!) کیا ہے؟
معاشی شکنجے میں کساؤ کی بنا پر ہم چہار جانب ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ خدا خدا کرکے ہم نے امریکی کمبل سے جان چھڑائی تھی، بلکہ یوں کہیے کہ افغانستان میں ذلت آمیز شکست پر امریکا جھنجلاتا، بلبلاتا خود ہی پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اب یکایک افغانستان سے بدلے چکانے کی ہوک نے ٹی ٹی پی کی آڑ میں پاکستان کو ورغلانے، استعمال کرنے کا ایک اور موقع نادر جان کر ازسرنو پینگیں بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ خود تو اب سبھی گورے، مغربی سابق سورما، افغانستان کو چھیڑنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ وہ پاکستان سے ایک مرتبہ پھر کرائے کے ٹٹو کا کام لینے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ ان کے اپنے خوف کا عالم تو یہ ہے کہ برطانوی پرنس ہیری نے ترنگ میں آکر علی الاعلان بڑھک مار دی کہ: ’میں نے افغانستان میں جنگ کے دوران 25 افغان مارے۔ اس پر کوئی اطمینان ہے نہ شرمساری۔ جنگ کی تپش میں دشمن جنگجو مارنے محض شطرنج سے مہرے ہٹانے کے مصداق ہوتا ہے۔ بُروں کو ٹھکانے لگا دیا قبل اس کے کہ وہ اچھوں کو مار دیتے۔‘ یہ کہنا تھا کہ ہیری کی شامت آ گئی۔ افغانوں نے تو گھرکنا ہی تھا پورے قہر وجلال سے۔ برطانویوں کو اپنی پڑ گئی۔ ان کے فوجی ذرائع نے فوراً اپنی ناپسندیدگی اس بیان پر ثبت کرا دی۔ ’یہ بیان فوجی روایت کے خلاف ہے۔ اس سے خود ہیری اور برطانوی فوجیوں کو دنیا بھر میں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔‘ ہیری بے چارے کو تو اب برطانوی پولیس کا تحفظ بھی حاصل نہیں ہے، 2020ء کے بعد سے۔ رہی برطانوی فوج، تو اس کے سپاہی تو آج بھی راتوں کو سوئے پڑے، ’طالبان، طالبان‘ کہتے لاشعور میں بیٹھے خوف کے ہاتھوں اٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ تو پاکستان تھا جس نے 450 برطانوی فوجی اور 2500 امریکی فوجیوں کی
اموات کے برعکس اس جنگ میں اپنی ایک لاکھ جانوں کی قربانی دے ڈالی۔ سو وہ (بجا طور پر) اب بھی ہم سے امید لگائے بیٹھے ہیں!
ادھر ہیری کو انس حقانی، اہم طالبان رہنما نے فوری جواب دیا: ’حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے بے گناہ عوام تمہارے سیاسی اور فوجی لیڈروں کے نزدیک صرف شطرنج کے مہرے تھے۔ تاہم (مت بھولو کہ) تمہیں سیاہ اور سفید چوکھٹوں کے اس کھیل میں شکست ہوئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ عالمی عدالت (آئی سی سی) تمہیں طلب کرے گی یا حقوقِ انسانی کے واویلا کار تمہاری مذمت کریں گے، کیونکہ وہ بہرے اور اندھے ہیں تمہارے لیے، مگر انسانیت کی تاریخ میں یہ مظالم یاد رکھے جائیں گے۔‘ ترجمان افغان وزارت خارجہ عبدالقہار بلخی نے کہا: ’ہیری کا تبصرہ قابض فوجوں کی طرف سے افغان عوام نے جو زخم کھائے ہیں، یہ اس المیے کی ایک جھلک ہے کہ کس طرح بے گناہوں کا بلااحتساب خون بہایا گیا، قتل کیا گیا۔‘ ایک برطانوی فوجی جو افغان جنگ میں دونوں ٹانگیں گنوا چکا ہے، کچھ وقت وہاں ہیری کے ساتھ بھی رہا، اس بیان پر چلا اٹھا: ’ہیری کو بکواس کرنے کی ضرورت کیا ہے!‘ (شٹ اپ) وہ جانتا ہے کہ افغانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنا انہیں بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔
یہ ہم ہیں جو اندھے بہرے غلام بنے زمینی حقائق دیکھتے ہیں نہ آسمانی حقائق! تاریخ کے اسباق جانتے ہیں نہ زیر زمین حقائق سے واقف ہیں …… جہاں ساروں کو جانا ہے، حساب اپنا چکانا ہے! پرویزمشرف کے احوال چھپائے گئے ہیں ورنہ نمونہئ عبرت کے لیے پورے مسلم ملک کو کفر کی چاکری پر بیس سال لگانے کا خمیازہ بھگتنے کی ہولناک داستان ہے وہ۔ فاعتبروا! ازسرنو امریکا امریکا پکارنے کی اب کیا گنجائش ہمارے پاس باقی ہے۔ تازہ ترین لطیفہ یہ ہے کہ پنجاب اور (امریکی ریاست) کیلی فورنیا کے مابین خواہرانہ معاہدہ ہونے کو ہے۔ وہ پنجاب کی بہن (Sister State) قرار دی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت کے نمایندے اور یوسف رضاگیلانی اکٹھے جا رہے ہیں۔ (اگرچہ ہمارے اس صوبے اور وفاق کے تعلقات مخدوش ہیں، امریکا سے بہن تلاش کرنے چلے ہیں۔) یہ دوستانہ تعلقات کا دورانیہ 3 سال کا ہے! خیر سگالی کے اس اظہار میں سفارتی، اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی دو طرفہ تعاون ہوگا۔ اگرچہ ہماری ساری غرض تو اقتصادی ہے۔ (تعلیم، ثقافت تو ہماری پہلے ہی امریکی ہے۔) یاد رہے کہ بھارتی پنجاب اور گجرات بھی کیلی فورنیا کے ساتھ اسی معاہدے میں جڑے ہیں۔ سو یوں بھارتی پنجاب اور مودی کا گجرات براستہ امریکا ہم سے سوتیلے خواہرانہ رشتے میں نتھی ہو جائیں گے۔ پھر ہمیں جو پسو کھٹمل کاٹیں گے اس خواہرانہ قرب میں، ان سے اللہ بچائے۔ ویسے جس کیلی فورنیا جا رہے ہیں وہ طوفانوں میں ڈوبا، کیچڑ میں لت پت، ایمرجنسیوں کا مارا، بجلی ندارد، فلائٹس معلق، معطل۔ اللہ کی زبردست گرفت میں گھرا کھڑا ہے۔ مشتری ہوشیار باش!
یاد رہے کہ سال 2022ء میں امریکا میں 16 موسمی تباہیاں آئیں۔ ہر ایک نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ کیلی فورنیا پر مسلط ہری کین (Twister)، مروڑکر رکھ دینے والا (قوم عاد سے مشابہ) جنگی تباہی پھیلا گیا ہے۔ اسی لیے اسے ’بم سائیکلون‘ کا نام دیا گیا۔ تند وتیز ہوائیں اور 43 فٹ کی لہریں سمندر میں اٹھیں۔ آسمان پر انہوں نے ’آسمانی دریا‘ کی موجودگی کا تذکرہ کیا۔ تصاویر میں فضائی، کرہئ سماوی کا یہ دریا 100 میل لمبا، 620 میل چوڑا اور 1.8 میل گہرا سسٹم ہے۔ یہ بہت بڑے مسی سپی دریا سے بھی زیادہ پانی کے حامل نظام ہوسکتے ہیں سر پر معلق۔ علاقوں سے جابجا آبادی کا انخلا ہوا ہے، جس سے اموات تو زیادہ نہیں ہوتیں مگر سیلاب، طوفان مل کر کچرا بنا ڈالنے کو کافی ہے۔ ٹوٹے درختوں کے ڈھیر، تاروں اور سائن بورڈوں کا گرنا، ٹوٹی سڑکیں، ڈوبے پل، لینڈ سلائڈنگ، 2لاکھ بجلی کے بغیر، معاشی نقصان بے پناہ! وہ سبھی کچھ جو ان کی مسلط کردہ جنگوں سے آبادی کے انخلا کا المیہ ہر مسلمان ملک نے دیکھا، وہ اب مسلسل امریکا بھگت رہا ہے۔ سبھی مغربی ممالک، آزمائشوں کے پھیرے میں ہیں۔ ایک نمونہ برلن (جرمنی) میں نئے سال کی رات مناتے پولیس، آگ بجھانے والے اور ہنگامی امدادی عملوں پر 355 حملے ہوئے۔ (برلن کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں بھی پٹاخوں، راکٹوں کے ذریعے۔) پولیس پر حملے ایک سال میں 689 سے بڑھ کر 39649 ہوگئے! کہتے ہیں جرمنی میں انتہاپسندی بڑھ گئی ہے! سر پکڑے بیٹھے ہیں! مگر (ہماری ہی طرح) اونٹ کا سا نادان جو نہیں جانتا کہ مالک نے باندھا کیوں اور کھولا کیوں۔ ہم احمقوں کی طرح پھر عازمِ امریکا ہیں، اللہ کی ایک سننے کے روادار نہیں! پناہ بخدا! ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ غضب ناک ہوا ہے۔ (کیونکہ) جس طرح کافروں کو مردوں (کے جی اٹھنے) کی امید نہیں، اسی طرح ان لوگوں کو بھی آخرت (کے آنے) کی امید نہیں ہے۔‘ (الممتحنۃ۔ 13) ہر نماز میں، سورۃ الفاتحہ میں مغضوب ضالین کی راہ سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ سوا ستیا ناس اس سیکولر ازم کا جو ہماری عقل وفہم چاٹ گئی۔ وہ فیصلے کرتے ہیں جو دنیا وآخرت میں تباہی کی یقینی سوداگری ہے۔ پاکستان اوپر کی سطح پر بالخصوص اور نیچے بھی بالعموم سکینڈلستان اور فراڈستان بن چکا ہے۔ چہار جانب وہی ہے چال بے ڈھبی، بقول احمد فراز:
مجھے خط ملا ہے غنیم کا…… جو میرے خلاف ہیں بولتے، انہیں نوکری سے نکال دو۔ جو ہیں بے خطا وہی دربدر، یہ عجیب طرزِ نصاب ہے، جو گناہ کریں وہی معتبر، یہ عجیب روزِ حساب ہے!