لاہور ہائیکورٹ نے چھ سالہ بچی سے زیادتی کے مجرم کی سزا کیخلاف اپیل مسترد کردی اور قرار دیا کہ میڈیکل رپورٹس اور ڈی این اے پازیٹو نہ بھی ہو تو ملزم کو متاثرہ لڑکی کے بیان پر سزا ہوسکتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے مجرم کی اپیل مسترد کرنے کا پندرہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالتی فیصلے میں نشاندہی کی کہ اکثر مقدمات میں ڈی این اے کے لیے مواد ناکافی ہوتا ہے لیکن اس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جرم نہیں ہوا۔
لاہور ہائیکورٹ نے متاثرہ کمسن بچی کے بیان کو بھی قابل تسلیم گواہی قرار دے دیا اور باور کرایا کہ جنسی زیادتی سے متاثرہ 6 سالہ بچی کے بیان کی کڑیاں شواہد کیساتھ وقوعہ ثابت کرتی ہیں ۔
عدالت نے قرار دیا کہ اعلی عدلیہ ریپ کیسز میں متاثرہ فریق کے بیان کو تسلیم کرنے کا اصول واضح کر چکی ہیں۔ ایسے میں متاثرہ کمسن بچی کے بیان کو تسلیم کرنے کا بہترین وقت ہے. لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹرائل کورٹ نے قانون کی روشنی میں فیصلہ سنایا۔ عدالت نے بین الاقوامی میڈیکل ماہر کے اقوال اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو فیصلے کا حصہ بنایا۔
ٹرائل کورٹ نے مجرم کامران کو عمر قید جبکہ برکت علی کو بری کیا تھا ۔ ہاٸی کورٹ نے کامران کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے اپیل مسترد کردی۔ مجرم کامران گوجرانوالہ کے ایک سکول میں گارڈ تھا اور اس پر چھ سالہ سکول کی بچی کے ساتھ واش روم میں زیادتی کرنے پر 2017 میں مقدمہ درج کیا گیا۔