چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک قیدی کے خط پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ وزیر اور جج چند دن جیل میں گزاریں تو انہیں مشکلات کا اندازہ ہو بلکہ اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ کبھی جیل گئے ہیں۔ آگے کی تفصیل اخبارات میں شائع ہو چکی ہے۔ دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ’’پیدل عدالت آنے والے جج کو روکنا بھی توہین عدالت ہے‘‘۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بدسلوکی کیس میں سابق کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی نظر ثانی کی درخواستیں خارج کر دی گئیں۔ جسٹس افتخار کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی عام انسان کے ساتھ ہو تو اسے اگر انسانیت کی توہین سمجھا جائے تو پھر کہا جا سکے گا کہ معاشرت اپنی ہدف کو پہنچ گئی ہے۔صرف توہین عدالت ہی نہیں توہین انسانیت کے خلاف کارروائی بھی ہمارے مقاصد کا حصول ہونا چاہیے۔ کنزیومر کورٹ ہو یا کوئی بھی عدالت کسٹم ٹربیونل، بینک کورٹس، انشورنس کورٹس گویا تمام لوئر کورٹس سے سپریم کورٹ تک کے جج صاحبان کی توہین کسی بھی معاشرے میں معاشرت کی موت ہے۔ وزیر اور جج چند روز جیل میں تو شاید بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہو یقینا مراد یہی ہے کہ صاحب اقتدار اگر چند روز مصیبت اور جیل میں گزارے تو اسے انسان کی بے بسی کا احساس ہو جائے۔ اس میں بیوروکریسی اور اشرافیہ کے دیگر طبقات بھی شامل ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ جیل میں دوہرے معیار اور سلوک کیے جاتے ہیں۔ اگر غور کریں تو کیا یہی سلوک جیل کے باہر ہمارے معاشرے اور معاشرت میں نہیں ہے۔ توہین عدالت تو عدالت کے کسی حکم پر عمل نہ کرنے یا چودھری افتخار محمد سے سلوک، سپریم کورٹ پر حملے کی صورت میں ہماری تاریخ میں موجود ہیں لیکن کچھ توہین عدالت تاریخ رقم کرتی ہے۔ جسٹس منیر سے لے کر موجودہ چیف جسٹس تک تاریخ سب کو الگ الگ کرتی چلی جائے گی، جیسے جسٹس رستم کیانی، جسٹس کارنیلیئس، جسٹس صمدانی، جسٹس ملک سعید حسن، حتیٰ کہ کسٹم ٹربیونل لاہور کے ممبر جناب محمد صادق، وفاقی محتسب جناب سید طاہر شہباز شاہ، حالیہ ٹیکس محتسب جناب ڈاکٹر آصف محمود جاہ فخر پاکستان، ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز پھر جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس (ر) کھوسہ، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس مولوی مشتاق، چیف جسٹس انوارالحق شیخ کیا کیا نام گنوائیں۔ چھوٹی سے لے کر عدالت عظمیٰ تک مقدمات کے حوالے سے نہیں کردار کے حوالے سے توقیر و توہین کا تعین تاریخ کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ وزیر چونکہ بنیادی طور پر سیاست دان ہوتے ہیں، جیل جاتے رہتے ہیں اور جاتے رہیں
گے مگر ان سیاست دانوں کی حالت یہ ہے جیسے کسی میت کو دفنانے والے سمجھتے ہیں کہ وقت ان پر نہیں آئے گا۔ اگر یہ اپنے دور اقتدار میں چشم تصور اس حوالے سے اپنی ذات پر ڈال لیں یہ بھی جیل جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ عثمان بزدار نیب کی حوالاتوں اور طریقہ کار کے بارے، قیدیوں کو لانے لے جانے والی ویگنوں میں سیٹیں لگوانے اور جیل اصلاحات کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوششیں شہباز شریف کے دور میں بھی ہوئی ہوتیں تو یقینا بہتر عمل ہوتا، یہ ایک چشم تصور کا نتیجہ ہی ہے کہ آج کے حاکم کل کے حوالاتی ہو سکتے ہیں۔ چاہے وعدہ معاف گواہ بننے کے مختصر دورانیے کے درمیان ہی کیوں نہ جیل جانا پڑے۔ قیدیوں کے انٹرویو ضرور ہونے چاہئیں مگر ان لوگوں کے بھی انٹرویو نشر ہونے چاہئیں جن کے ساتھ زیادتی کے مقدمہ میں وہ جیل میں بند ہوتے ہیں۔ بے گناہ قیدی اور حقیقی مظلوم کی آواز جب میڈیا کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچے گی تو بہتری کا ارتقا تیز اور تنزلی و بربادی کا معاشرتی انحطاط رک سکے گا۔ جناب چیف جسٹس اطہر من اللہ کے حالیہ فیصلے اور ریمارکس قوم کی آواز ہیں جس میں انہوں نے مری میں بے بسی کی موت مرنے والوں کے زخموں پر بھی مرہم رکھا اور یقینا مری ہوٹل والوں اور مقامی آبادی کی درندہ صفتی پر مبنی رویے کا بھی کچھ ازالہ کریں گے جنہوں نے 800روپے تک کا انڈہ فروخت کیا۔ خود رکاوٹ کھڑی کر کے لوگوں کو برف کے ہاتھوں یرغمال بنایا، ایسی گھناؤنی خبریں ویڈیوز کے ساتھ سوشل میڈیا، وطن عزیز کے عوام تک پہنچ چکی ہیں۔ رہ گئی بات موجودہ حکمرانوں کی ان کے لیے تو ان کے حامی ہی کہنے لگے کہ حکومت اپنے آپ کو عقل کل سمجھتی ہے۔ جبکہ حزب اختلاف گھٹنوں کے بل ایک پاؤں آگے نکال کر بیٹھی ہوئی ہے کہ کب سیٹی بجے اور وہ عوام کے دکھ کے ازالہ کے لیے دوڑ لگا دیں پھر پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر آنے والوں کا اقتدار بانٹ میں اعلان ہو۔ موجودہ حکمران اس سیٹی سے ڈر رہے ہیں۔ توہین عدالت کے مقدمات تو غیر مشروط معافی پر منتج ہوتے رہتے ہیں لیکن حقیقی توقیر و توہین کا فیصلہ تاریخ کرتی ہے۔ جب کوئی ناجائز کام کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ لوگ اندھے ہیں انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا، حالانکہ وہ خود بے بصارت ہوتا ہے لوگ اور تاریخ دونوں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ابھی تک تو ملک پر مسلط ہونے والے طبقات ریٹائر ہی نہیں ہوتے اور نئی نسلیں ان کے آوے ای آوے کے نعرے لگا لگا کر پوری ہو جاتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ باپ، دادا اور پوتا سبھی اس امید پر ان نعروں میں ان کے پیچھے ہیں، سیاست دان، جج، جرنیل اور بیوروکریٹ ریٹائر نہیں ہوتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لاکھوں میں پرانی پنشن اور لاکھوں میں نئی تنخواہ جبکہ دوسری طرف عوام بچوں کے ساتھ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ریاست کے چاروں ستون اب اقتدار میں شراکت ہی نہیں آپس میں رشتہ داریاں بھی کر رہے ہیں۔ ذات برادری کا نظام اب حاکم اور محکوم کے نظام میں بدل چکا ہے لہٰذا رعایا اور محکوم سمجھیں کہ حکمرانی کرنا حکمران طبقوں کا کاروبار ہے۔ہم نے آزادی کیسے حاصل کرنی ہے، کوئی ہم میں سے ہی آئے گا تو ہدف حاصل ہو گا۔ عمران خان کہتے ہیں ہر چیز موجود ہے، منافع خوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ خان صاحب! یہی تو قحط ہے کہ اللہ کی نعمتیں ہوں مگر عوام کی پہنچ میں نہ ہوں۔ حکمران طبقوں کے لیے بقول کلیم احمد عاجز
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
اور تحریک انصاف، سیاسی و فوجی حکمرانوں سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کے لیے محترمہ ناز بٹ کے بقول
جو چبھ رہا تھا آنکھ میں وہ خواب ختم ہو گیا
رگوں سے جان کھینچ کر عذاب ختم ہو گیا