ابھی تو وزیر اطلاعات کی سیاحتی معاشی ترقی اور مری میں ایک لاکھ گاڑیوں کی آمد کی ٹویٹ کی سیاسی بھی خشک نہ ہوئی تھی، لاہور میں بیٹھی اعلیٰ افسر شاہی کی ستائش پر مبنی اپنے آفیسر کو کی گئی ٹویٹ بھی مدھم نہ ہوئی تھی، کہ پنجاب کے سیاحتی مرکزمیں سردی اور مونو آکسائیڈ سے سیاحوں کی ہلاکتوں کی خبر میڈیا پر آگئی۔
امر واقعہ یہ ہوا کہ گنجائش سے زیادہ عوام برف باری دیکھنے مری پہنچ گئی، نہ تو مال روڈ پر تل دھرنے کی جگہ تھی نہ گاڑیوں کی پارکنگ ممکن تھی، یہ تعداد اس کے علاوہ تھی جو شدت سے بچوں اور فیملی کے ساتھ گاڑیوں میں موجود مری کے تفریحی مقامات تک پہنچنے کے لئے بے تاب تھے، یہ انتظار اتنا طویل ہوا کہ ان میں سے دودرجن کے قریب سیاح جن میں بچے، مرد وخواتین شامل تھے، سنو فالنگ دیکھنے کی حسرت لئے موت کی وادی میں چلے گئے انکی گارڑیاں برف کی قبریں بن گئیں، اس کے بعد ملک بھر میں بحث کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے، اس سانحہ کے بعد سرکار بھی متحرک ہوئی ،اس کی باز گشت پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی، جس طرح ہر قومی سانحہ کے بعد الزام تراشی اور بلیم گیم کا آغاز ہوتا ہے، اِسکے بعد توقع کے مطابق ایسا ہی ہوا ۔
تحقیق، تفتیش، مذمتی، بیانات، اعلانات، مطالبات کی وہی گردان دہرائی جارہی ہے، کس کو قربانی کا بکرا بننا پڑے گا، کون قصور وار ٹھہرایا جائے گا، کون صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو گا ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ طے ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سانحہ بھی باقی کی طرح تاریخ میں گم ہو جائے گا۔ ورثا اس کو تقدیر کا کھیل سمجھ کر صبر کر لیں گے،سرکار متاثرین کو معاوضہ دے کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر لے گی،تاہم گمان کیا جاتا ہے کہ اسکی آڑ میں بلیک میل کرنے والے’’ بابوں ‘‘کی روٹی روزی کا اہتمام ضرور ہو جائے گا۔
تاج برطانیہ کے عہدسے آباد یہ شہر ملکہ کوہسارسیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، ہر سال موسم گرما اور سرما میں سیاح اسکی یاترا کے لئے جاتے ہیں،ہوٹلوں میں قیام بھی کرتے ہیں، برف باری سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں ،لیکن اس سانحہ نے ان تمام خامیوں کو عیاں کر دیا ہے، جن پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ سرکار، ہوٹل انتظامیہ، اور عوام نے جن سے صرف نظر کیا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ اس تفریحی مقام کو وسعت دینے کی
کوئی سنجیدہ کاوش ہی نہ کی، اشرافیہ نے اس ٹھنڈے مقام پراپنی بیٹھک کے لئے تو بڑے بڑے سرکاری ہائوسز بنا لئے، عسکری اداروں نے دفاع کے نام پر اپنے اپنے کیمپ آفس قائم کر دیئے لیکن سیاحوں کو تمام تر سہولیات پہنچانے میں مجرمانہ غفلت برتی گئی ، جس کا نتیجہ آج ارباب اختیار کے سامنے ہے ۔ یہ سانحہ انتظامی افسر کے دفتر سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر پیش آیا، فی زمانہ سوشل میڈیا پل پل کی خبر دیتا ہے ، سیاح جو تفریح کی غرض سے وہاں گئے وہ اپنے سفر کی داستان سے اہل خانہ کو بھی آگاہ کرتے رہے، بے چینی اور بے بسی کی تصویر بنے وہ انکی زندگی کی دعائیں مانگتے رہے، وہ ماں جیسی ریاست اور اس میں ایک منظم سرکار اور متحرک ا نتظامیہ کہیں دکھائی نہ دی تاآنکہ ورثا کو اپنے پیاروں کی موت کے کرب ناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ دوسری ریاست کے یہ شہری نہ تھے، کوئی انکا پرسان حال ہی نہ ہوتا، بعض متاثرین کی فون کال بڑے افسران سے رابطہ کا بھی پتہ دیتی ہے، متعلقہ افراد نے گرم اور نرم کو لحاف کوچھوڑنے کے بجائے ان کی زندگی کا فیصلہ تقدیر پر چھوڑ دیا، ا ب پوری ریاستی مشینری کف تاسف مل رہی ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ سیاحتی مقام میں انتظامی امور کی انجام دہی کے لئے ایس او پیز تو موجود ہیں، لیکن یکے بعد دیگرے انتظامی افسران کے تبادلہ جات نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ ان کا جائزہ لے کرہنگامی اقدامات کئے جاتے، قیمتی جانوں کے زیاں کے بعد پنجاب کے پردھان منتری نے مری کو ضلع بنانے، اس میںنئے تھانے قائم کرنے اور ہوٹل مافیاز کے خلاف سخت ایکشن لینے کا عندیہ دیا ہے، ملکہ کوہسار کی جغرافیائی حدبندی جو گلیات کے نام سے موسوم ہے، اس کا بڑاحصہ صوبہ پختون خوا میں بھی شامل ہے، موٹر وے بننے کے بعد سیاحوں کی رسائی اس مقام تک بہت آسان ہو گئی ہے، لہذا پنجاب کے علاوہ دیگر علاقہ جات سے بھی عوام جوق در جوق چلے آتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر گردشی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے، ہر طرح کا مافیا اس مقام پر پایا جاتا ہے جو سیاحوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں کرتا اور اگر کوئی اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے تو سب اکھٹے ہو کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں، ہوٹل کی بکنگ، گاڑی کا کرایہ ، پارکنگ ،سامان کی ترسیل تک سب کچھ وہاں ٹائوٹ مافیاز کے ہاتھ میں ہے، راقم نے مری میں چند ہفتے قیام کے بعد وہاں کی آبادی کو قریب سے دیکھا بھی ہے، ایک گائوں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا، مقامی آبادی کے افراد سیاحوں کو گمراہ کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں، سادہ لوح افراد انکا خاص نشانہ ہوتے ہیں، یہ سیاحوں کی مشکلات میں اضافہ کر کے’’ انجوائے ‘‘ کرتے ہیں، ماضی میں اس رویہ کے خلاف سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی مہم چلی تھی، اب بھی اسکا تذکرہ کیا جارہا ہے، لیکن وہ انتظامیہ کہاں ہے؟ جس کو مافیازکے تدارک کے لئے تعینات کیا جا تا ہے۔
وہاں پر موجود وزیراعلیٰ، گورنر ہائوسز کا اتنا تو دبدبہ ہونا چاہئے کہ مافیاز ان عمارتوں ہی سے خوف کھاتے، مگر عالم یہ ہے سول اور عسکری انتظامیہ کی ناک کے نیچے سیاحوں کے ساتھ ناانصافی روا رکھی جاتی ہے،خوف کی ایسی فضا ہے کہ فیملی کے ساتھ کوئی شکایت کرنے کا رسک ہی نہیں لیتا، قدم قدم پر بلیک میلنگ اِنکے حوصلے پست کر دیتی ہے۔ اس سانحہ کے بعد ہوٹل مالکان، اور اہل مری کے خلاف اٹھنے والی آوازنے تاجر برادری، شہری نمائندگان، سول سوسائٹی کو اپناموقف دنیا کے سامنے رکھنے پر مجبور کیا ہے، قرائن بتاتے ہیں کہ جب بھی ناقص، بوسیدہ کھانے، سہولیات کی عدم دستیابی، اشیاء کے منہ مانگے دام کی شکایت کسی سیاح کی جانب سے کی جائے تو پوری تاجر برادری سیاح کے بجائے ہوٹل مالکان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ یہ نہ تو پہلی برف باری تھی نہ ہی سیاح پہلی مرتبہ وہاں گئے لیکن بد انتظامی نے سارا پول ہی کھول دیا ہے، اس کے ساتھ عوام کے غیر سنجیدہ، اور روایتی انداز سفر نے دنیا بھر میں’’ عوامی حماقت‘‘ کا بھی واضح پیغام دیا کہ محکمہ موسمیات کی وارننگ،انتظامیہ کی سختی انکے ’’شغل‘‘ اور تفریح کے آگے بندھ نہیں باندھ سکتی۔
ساری کارگزاری میں پنجاب کے وزیر سیاحت کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا، اِنکی خاموشی نجانے کس طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گی؟ تاہم فرط جذبات میں صرف مری پر ہی فوکس نہ کیا جائے بلکہ تمام تفریحی مقامات کو سیاحوں کے لئے محفوظ بنا کر سیاحتی معیشت کی مضبوطی کے خواب کی تعبیر دیکھی جاسکتی ہے۔ جس کی نوید وزیر اطلاعات مری کے حالات سے بے خبر ہو کر عوام کو دیتے رہے۔ بند راستوں،بھاری بھر کرایوں کے خوف نے سیاحوں کو گاڑی میں رکنے پر مجبور کیا یہی گاڑیاں ان کے لئے برف کی قبریں بن گئیں۔