ایک دہائی قبل عالمی فوجداری عدالت کے قیام پر دستخط کرنے والے ملکوں کی ایک کانفرنس ہوئی جس کا مقصد ایسے جرائم جن پر عالمی عدالت کارروائی کر سکتی ہے، ان میں نئے جرم جارحیت کا اضافہ کرنا تھا۔ امریکا، روس، چین، ایران اور بھارت نے بطور رکن عالمی عدالت نئی ترمیم پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، انہوں نے نئے جرم ’’جارحیت‘‘ کا خیرمقدم کرنے سے بھی گریز کیا۔ البتہ نیٹو کی رکن 15ریاستوں نے اس کی تائید کی۔ روس کے ضابطہ فوجداری میں جارحیت کا علیحدہ سے قانون ہے، جس میں ’’جارحانہ‘‘ جنگ کی منصوبہ بندی، تیاری اور اس میں شرکت کی ممانعت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، جارحانہ جنگ شروع کرنے کے عوامی مطالبے کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ روسی سیاستدانوں اور رہنماؤں کو مقامی عدالتوں میں گھسیٹنے کیلئے اس قانون کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ اوباما کے دور میں امریکا میں اس بات ایک سنجیدہ بحث ہو چکی ہے کہ جسمانی تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے کہ نہیں۔ امریکی گیلپ سروے کے مطابق 62فیصد امریکیوں نے کارروائی کی حمایت کی۔ تاہم اوباما نے یہ سوچ کر کوئی فیصلہ نہ کیا کہ اس سے امریکی منقسم ہو جائیں گے۔ جنگ مسلط کرنا آج کی دنیا میں ایک عالمی جرم ہے۔ اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں اکثر اس موضوع پر بات ہوتی ہے؛ حالانکہ امریکا اور ایران کے مابین جنگ کے خطرے پر ان دنوں بکثرت بحث ہو رہی ہے۔ اس کشیدگی کی ذمہ دار لوگ نہیں، رہنما ہیں۔ جیسا کہ ہٹلر کے نائب ہرمین گوئرنگ نے جیل سے ایک وضاحت کے دوران کہا: ’’بلاشبہ لوگ جنگ نہیں چاہتے۔ کسان یا فیکٹری مزدور کیوں چاہے گا کہ جنگ کے نام پر اپنی زندگی خطرے میں ڈالے جبکہ زندہ سلامت وہ اپنے اہل خانہ اور لوگوں کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ یہ قومی رہنما ہی ہیں جو کہ پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں، جمہوریت ہو یا فاشسٹ آمریت، دونوں قسم کے رہنما لوگوں کو پیچھے لگانے کے لیے جنگی
جنون کو ایک آسان راستہ خیال کرتے ہیں۔‘‘
پروفیسر نوح ویزبورڈ جنگ کے موضوع پر اپنی نئی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’وہ سمجھتے ہیں کہ تصوراتی قوتیں اور ریاستوں کی مقابلہ بازی ماچس کی وہ تیلی ہیں جو جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، جسے جلانے کے لیے جنونی ہونا ضروری ہے‘‘۔ جارحیت پر 1990ء کی دہائی میں کوئی قانون ہوتا تو کویت میں فوج کشی پر عراقی صدر صدام حسین کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔ صدربش سینئر اور برطانوی وزیر اعظم تھیچر کے مابین اس موضوع پر بات بھی ہوئی تھی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو عراق کی دوسری جنگ نہ ہوتی، نہ کسی داعش کو عراق میں اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملتا۔ کریمیا اور یوکرائن میں مداخلت پر روسی صدر ولادی میر پوتن بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہوتے۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا ایسی باتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان کا فرمانا تھا ’’امریکی طاقت کو محدود کرنے والے تمام عالمی قوانین اور دیگر کوششیں بے معنی ہیں‘‘۔ بولٹن نے شاید کبھی ارسطو کو بھی نہیں پڑھا تھا جو کہ لکھتے ہیں ’’انسان تمام جانوروں میں مہذب ترین ہے؛ اس ناقص وجود کو قانون اور عدل ممتاز بناتے ہیں‘‘۔ میری نظر میں جان بولٹن شاہ لوئسXIV سے متاثر تھے جس نے پیرس کی پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کہا: ’’یہ اس لیے قانون کے مطابق ہے کیونکہ میں ایسا چاہتا ہوں‘‘۔ جدید دور کے امریکی صدور میں جارج ڈبلیو بش بدترین ہوئے ہیں کہ انہوں نے عالمی قانون کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ بش نے 1972ء کے روس کے ساتھ اینٹی بیلسٹک میزائل معاہدہ سے امریکا کو الگ کیا؛ عالمی فوجداری عدالت کے قیام کے معاہدہ پر دستخط نہ کیے؛ ایران میں غیر قانونی مداخلت کی؛ جسمانی تشدد سمیت جنیوا کنونشنز کے مختلف خلاف ورزیاں کیں؛ ڈارفر سوڈان میں نسل کشی روکنے میں ناکام رہے۔ امن پسند اور قانون کے پابند خیال کیے جانے والے اوباما نے بیرون ملک مشتبہ دہشت گردوں کی سزائے موت کی اجازت دی؛ 506 ڈرون حملوں کی اجازت دی جس میں ایک اندازے کے مطابق 3040 مبینہ دہشت گرد اور 391 عام شہری ہلاک ہوئے۔ البتہ اومابا نے تشدد پر پابندی لگا دی تھی۔
ادھر عام تاثر کے برعکس عالمی قانون کا نفاذ کہیں زیادہ موثر ثابت ہوا ہے۔ کبھی طاقتور خیال کیے جانے والے صدور، وزرائے اعظم اور نائب صدور کے خلاف عالمی عدالت کارروائی کر چکی ہے۔ سابق یوگوسلاویہ کے 161جنگی مجرموں پر عالمی عدالت فرد جرم عائد کر چکی ہے، ان میں بعض گرفتار کر کے جیل بھیج دیئے گئے، کچھ مار ے گئے۔ بعض سکالرز اور قانونی ماہرین نے عالمی فوجداری عدالت کے معاہدے کو مزید سخت بنانے کی تجاویز دی ہیں۔ ڈیوڈ شیفر جو کہ بل کلنٹن کے دور میں جنگی جرائم ایسی سرگرمیوں کے ذمہ دار تھے، انہوں نے ریگولر عالمی فورس کا مطالبہ کیا ہے جو کہ گرفتاری کا اختیار رکھتی ہو۔ یہ فورس اعلیٰ تربیت یافتہ پولیس اور فوجی عملے پر مشتمل ہونی چاہیے جو کہ تمام رکن ریاستوں میں آپریشن کا اختیار رکھتی ہو۔ عالمی عدالت کی یہ ٹیم صرف اس وقت کارروائی کرے جب عالمی عدالت کا پراسیکیوٹر یا سکیورٹی کونسل اس سے درخواست کرے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاستیں اپنے اتحادیوں سے معاونت کی درخواست کریں۔ 2011ء میں یوگنڈا نے امریکا سے سپیشل آپریشن فورس کے اہلکار بھیجنے کی درخواست کی جو کہ جوزف کونی کی گرفتاری میں مدد کرے۔ جوزف کونی لارڈز مزاحمتی فورس کا سربراہ تھا جو نوجوانوں کو مسلح فورس کا حصہ بنانے کے لیے بے رحمی کی کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ 2018ء میں امریکا اور افریقی یونین کے تعاون سے یوگنڈا نے جوزف کونی کی فورسز کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ جوزف کونی تب سے افریقہ کے وسیع و عریض جنگلوں میں روپوش ہے۔
(بشکریہ: انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون)