عظیم استاد،ناقد ، افسانہ نگار،اقبال شناس، مزاح نگار اور ادبی مورخ ڈاکٹر سلیم اختر 30 دسمبر 2018 ءکو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ڈاکٹر سلیم اختر ایک فرد نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ آ پ افسانہ، ناولٹ،تنقید ، نفسیاتی تنقید، اقبالیات ، غالبیات ،آپ بیتی ، ادبی تاریخ، سفر نامہ، طنزومزاح اور اردو زبان و ادب کے موضوعات پراپنی قلم سے تاحیات موتی بکھیرتے رہے۔
آ پ11 مارچ1934 ءکو الاہور میں پیدا ہوئے ۔آ پ کے دادا قاضی عبدالحکیم قریشی کا تعلق ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے نواحی گاؤں سے تھا۔جبکہ نانا منشی نور حسن فیروز پور کی تحصیل مکتسر کے گاؤں رتہ تھیڑا میں آ باد تھے ۔آپ کے دادا ملٹری اکا ؤ نٹس میں ملازم تھے ریٹائر ہو کر سیالکوٹ آ باد ہو گے اور پھر وہیں دفن ہو ئے آ پ کے والد محترم عبد الحمید نے میٹرک کے بعد ایم اے جی آ فس میں ملازمت کی اور اسی دفتر سے ریٹائر ہوئے۔ آ پ نے اپنا بچپن بمبی،پونا اور انبالہ میں گزارا۔
قیام پاکستان کے وقت ڈ اکٹر سلیم اختر کے والد محتر م ملازمت کے سلسلہ میں انبالہ میں رہائش پذیر تھے۔
پاکستان بننے کے بعد واپس لاہور آ گئے۔1948 ءمیں والد محتر م کا تباد لہ راولپنڈی ہوگیا۔ڈاکٹر سلیم اختر نے 1951 ءمیں فیض الاسلام ہائی سکول راولپنڈی سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج اصغر مال سے ایف اے اور پھر اسی کالج سے بی اے کیا۔
1961 ءمیں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اردو کا امتحان پاس کیا اور 1978 ءمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔پی ایچ ڈی میں آ پکے مقالے کا عنوان”اردو میں تنقید کا نفسیانی دبستان“تھا۔
آ پ کی زوجہ محترمہ سعید ہ اختر کا خاندان انبالہ سے ہجرت کر کے پاکستان آیااور لاہور میں رہائش پذیر ہوا۔آ پ کی والدہ محترمہ اور زوجہ محترمہ کا تعلق راجپوت خاندان سے تھاوالدہ کا نام امام بی بی تھا لیکن شادی کے بعد نیا نام رضیہ رکھا گیا۔آ پ کی زوجہ محتر مہ سعیدہ اختر بھی تدریس کے پیشے سے منسلک رہیں۔ شادی کے بعد آ پ کی زوجہ محتر مہ نے آ پ کو گھر ذمہ داریوں سے بے فکر اور آ زاد کر دیااور آ پ کو گھر میں ایسا ماحول فراہم کیا کہ آپ نوے سے زیادہ کتابیں تحریر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آ پ کی دو بیٹیاںسائیکی ، ارم اور ایک بیٹا جودت سلیم ہے۔ بیٹا جودت سلیم آ ج کل بطور پروفیسر ڈاکٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔1962 ءکا سال ڈاکٹر سلیم اختر کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ 5 جنوری 1962 ءکو ملتان ایمرسن کالج میں بطور لیکچرر جائن کیا یکم اپریل 1962 ءکو شادی ہوئی اور 3 دسمبر 1962 ءکو بیٹی سائیکی کی پیدائش ہوئی۔
آ ج دنیا جس ادیب اور پروفیسر ڈاکٹر سلیم سے آ شنا ہے 1962 ءاس کی ادبی زندگی کا نقطہ آغاز ہے آ پ نے 5 فروری 1970 ءآ ٹھ سال تک ایمرسن کالج ملتان میں تدریسی فرائض سر انجام دیے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کا تبادلہ گورنمنٹ کا لج وحدت روڑ لاہور ہو گیااس کے بعد جون 1972 ءمیں جی سی کالج لاہور موجودہ جی سی یونیورسٹی میں تبادلہ ہوا۔
1994 ءمیں گورنمنٹ کالج لاہو سے ریٹائر ہوئے تاہم ریٹائر منٹ کے بعد بھی بطور وزٹنگ پروفیسر گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے رہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے زندگی کے چالیس برس تدریس میں گزارے آ پ کے طلبہ کی تعدد ہزاروں میں ہے۔ درجنوں طلبہ نے آ پ کی زیر نگرانی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے تحریر کیے جی سی یونیورسٹی میں تدریس کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب شعبہ اردو کا تقریباََ نصف ان کے شاگردوں پر مشتمل تھا ان شاگردوں میں اصغر ندیم سید،طارق زیدی،فاروق احمد، میاں غلام مصطفی،خالد سنجرانی،محمد سعید، تبسم ذوالفقار، نسیمہ رحمان،مصباح رضوی اور محمد احمد شامل تھے جبکہ یحیی امجد، انوار احمد، طاہر تونسوی اور نعیم چوہدری جیسے ذہین و فطین طلبہ بھی آ پ کے شاگرد تھے۔
ڈاکٹر سلیم اختر پر ڈ اکٹر جلیل اشرف نے رانچی یونیورسٹی انڈیا سے پی ایچ ڈی مقالہ ”اردو تنقید کے فروغ میں ڈاکٹر سلیم اختر کا حصہ“ تحریر کیا ہے۔پاکستان میں بھی ڈ اکٹر سلیم پر پی ایچ ڈی مقالہ بعنوان” ڈاکٹر سلیم اختر حیات و خدمات“ منہاج یونیورسٹی سے زیر تحقیق ہے یہ مقالہ ( راقم ) ہیڈ ماسٹر آ صف مسعود ڈاکٹر مظفر عباس کی زیر نگرانی تحریر کر رہا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے 90 سے زائد کتب تحریر کیں عام ادیبوں کی طرح آ پ ایک دو اصناف تک محدود نہ رہے بلکہ آ پ نے تنقید نفسیاتی تنقید،افسانہ،آ پ بیتی ،سفر نامہ، مقالات، اقبالیات، غالبیات، طنزومزاح اور ادبی تاریخ جیسے مشکل کام پر بھی قلم ا ٓ زمائی کی اور صحیح معنوں میں آ پ نے ان تمام اصناف کا پورا پورا حق ادا کیا۔
ڈاکٹر سلیم اختر بطور نقاد
نفسیانی تنقید ڈاکٹر سلیم اختر کا پسندیدہ موضوع تھا یہی وجہ تھی کہ آ پ نے بطورنقاد نفسیاتی تنقید پر زیادہ کام کیا ۔ نفسیات پر آ پ کا گہرا مطالعہ تھا فرائد،ژنگ اور ایڈلر کے نظریات سے آ پ بخوبی آ گاہ تھے اس موضوع پر آ پ کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔(1 )مغرب میں نفسیاتی تنقید(2 )تنقیدی دبستان(3 )خود شناسی:فرد او ر معاشرے کے تعلقات کا نفسیاتی مطالعہ
(4 )تخلیق اور لاشعوری محرکات(5 )نفسیاتی تنقید(6 )تنقید،منطق اور سائنس(7 )افسانہ حقیقت سے علامت تک
(8 )ادب اور لاشعور(9 )تخلیق، تخلیقی شخصیات اور تنقید(10 )افسانہ اور افسانہ نگار(11 )اقبال کا نفسیاتی مطالعہ
(12 )جوش کا نفسیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین(13 )شعور اور لاشعور کا شاعر غالب
ڈاکٹر سلیم اختر کی ان کتب میں اقبال کے نفسیاتی مطالعہ پر بعض حلقوں کی جانب سے شیدید تنقید کی گئی اس کے علاوہ ادبی حلقوں میں غالب کی نرگسیت کا بھی خاصہ تذکرہ رہا۔لیکن اقبال کے نفسیا تی مطالعہ کے دوران آپ نے لوگوں کے دلوں میں موجود اقبال کے تقدس کو ملحو ظ خاطر رکھا اور اسے متاثر نہ ہونے دیا۔
ڈاکٹر سلیم اختر بطور افسانہ نگار
ایک ناقد کے لیے افسانہ نگاری خاصہ مشکل کام ہے لیکن ڈاکٹر سلیم اختر نے بطور افسانہ نگار اس فن سے پوراپورا انصاف کیا ہے۔ آ پ کی افسانہ نگاری کا باقاعدہ آ غاز 1962ءسے ہوتا ہے جب آپ کی بطور لیکچرار ملتان میں ایمرسن کالج میں تقرری ہوئی۔آپ کے پانچ افسانوی مجموعوں میں”مٹھی بھر سانپ“،”کاٹھ کی عورتین“،”چالیس منٹ کی عورت“اور ”آ دھی رات کی مخلوق“ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک ناولٹ ” ضبط کی دیوار“ بھی تحریر کیاجس کے کرداروں میں سلیم اختر اورکالج کے زمانے کے دوست”قوال پارٹی“ ناموں کی تبدیلی کے ساتھ موجود ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی تمام افسانوی متاع حیات جس میں107 افسانے شامل ہیں اور ناولٹ ضبط کی دیوار کو ” نرگس اور کیکٹس“ کے عنوان سے شائع کروا یا۔ڈاکٹر سلیم اختر کی ذہنی دلچسپیوں کا دائرہ خاصہ وسیع ہے آ پ نے اساطیر ، اینتھروپولوجی،آکلٹ اور پیراسائیکالوجی کا مطالعہ بھی کیا جس کے اثرات افسانوی کرداروں میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔کئی افسانوں کی بنیاد اساطیر اور آ کلٹ پر ہے جیسے پکار، سائے کے طرح ساتھ پھریں، بن آتما اوراماوس ۔
بعض افسانے ایسے ہیں جن کی کہانیاں روز مرہ واقعات سے لی گئی ہیں جیسے ” چالیس منٹ کی عورت“ سلیم اختر کی دہلی سے اسلام آباد چالیس منٹ کی پرواز کے دوران ساتھ والی سِیٹ پر بیٹھی خاتون کی سنائی جانے والی کہانی ہے ۔ اسی طرح ”کاٹھ کی عورتیں“ ریل میں ساتھ سفر کرنے والی ایک خاتون کا قصہ ہے اسی طرح افسانوی مجموعہ ”مٹھی بھر سانپ“ ملتان تدریس کے دوران تحریرکیا ۔”کڑوے بادام“ کے بیشتر افسانے ضیاءدور کے ہیں۔ آ پ کے کئی افسانوں کا ترجمہ ہندی،انگریزی ، آ سامی ،ترکی ، پنجابی اور بنگلہ میں ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر بطور اقبال شناس
ڈاکٹر سلیم اختر نے بطور اقبال شناس کئی کتب تحریر کیں اور اقبال کی ذات کے بعض ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی جن پراس سے پہلے کسی ناقد یا اقبال شناس نے کام نہیں کیا تھا سلیم اختر نے اقبال کی نثر اور شاعری دونوں کو سخن مشق بنایا ۔ سلیم اختر نے اقبالیات کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جو عام اقبال شناسوںکی نظر سے اوجھل رہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے بطور اقبال شناس درج ذیل کتب تحریر کیں۔
(1 )اقبال اورہمارے فکری رویے(2 )فکر اقبال کا تعارف(3 )اقبال ،شخصیات،افکارو تصورات:مطالعہ کا نیا تناظر
(4 )علامہ اقبال :حیات فکرو فن(101 )مقالات(5 )ایران میں اقبال شناسی کی روایت(6)فکر اقبال کے منور گوشے(7)اقبال ممدوح عالم(8)مسلم ممالک میں اقبال شناس کی روایت(9)اقبال کا ادبی نصب العین(10)اقبال شعاع صدرنگ(11)اقبالیات کے نقوش(12)اقبال شناسی اور فنون(13)اقبال شناسی کے زاویے(14)اقبال کی فکری میراث(15 )شرح ارمغان حجاز
ڈاکٹر سلیم اختر نے اقبال کی غزلوں کا تاریخ وار تجزیاتی مطالعہ پیش کیا اس کے علاوہ اقبال کی نثری تخلیقات اور افکار و خیالات کا ایک تجزیاتی اور ٹھو س مطالعہ پیش کیا۔”فکر اقبال کا تعارف“ فرانسسی خاتون ادیبہ لوس کلو ڈ قیخ کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ڈاکٹر سلیم اختر نے ایران اور دیگر مسلم ممالک میں اقبال شناسی کے حوالے سے بات بھی کی۔ ”شعاع صد رنگ“ ڈاکٹر سلیم اختر کی تالیف ہے جو اقبال کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر بطور ادبی مورخ
”اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ “بجا طور پر ڈاکٹر سلیم اختر کا ایسا کارنامہ ہے جسے تما م اردو زبان کے چاہنے والے ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں خود ڈاکٹر سلیم اختر کو بھی اپنی یہ کتاب تمام کتب میں سب سے زیادہ پسند تھی کتاب کا پہلا ایڈیشن آ تے ہی آ پ کو بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کر نا پڑا۔کو ئی اپنا نام نہ آ نے اور کوئی دشمن کا نام آ نے کی وجہ سے ناراض تھا کسی کو کم جگہ ملنے کی وجہ سے شکوہ تھا اور کوئی اپنے مخالف کو زیادہ جگہ ملنے پر برہم تھا۔آ پ کو دھمکی آ میز خطوط بھی ملے اور بعض اخبارات میں گمراہ کن پرو پیگنڈہ بھی کیا گیا۔1968 ءمیں کتاب کا پہلا ایڈیشن ملتان سے شائع ہوا تو بتیسواں ایڈیشن 2018 ءمیں سنگ میل پبلی کیشنز کی طرف سے شائع کیا گیا۔موجودہ ضخامت کی وجہ سے کتاب اب مختصر نہیں رہی لیکن اس کے نام میں”مختصر ترین“ ہمیشہ رہے گاکیونکہ نام کی تبدیلی کا حق رکھنے والا اب خود تاریخ کا حصہ بن چکاہے۔
سلیم سے سلیمیات تک:
ڈاکٹر سلیم اختر ایسے ا دیب تھے جس کی ذات چند اصناف اور مو ضوعات تک محدود نہ تھی بلکہ ان کی ذات ایسے بہتے دریا کی مانند تھی جس کا پانی صاف اور شفاف تھا اور جس سے چھوٹی چھوٹی ندی نالیاں پھوٹتی تھیں جس سے بے شمار مخلوق خدا اپنی علمی پیاس بجھاتی تھی۔
” نشان جگر سوختہ “ کے عنوان سے آ پ نے جد اگانہ طرز اسلوب کی آ پ بیتی تحریر کی جس میں بناوٹ کی بجائے آ پ نے سچائی کے ساتھ اپنی زندگی کے واقعات کھلی کتاب کی طرح پیش کیے۔” اک جہاں سب سے الگ“اور ”عجیب سیر تھی“ کے عنوان سے سفر نامے تحریر کیے۔ تنقیدی اصطلاحات کی صورت میں ”تو ضیحی لغت“ اور ” کلام نرم نازک“ کے عنوان سے طنزیہ مضامین کا فن پارہ تخلیق کیا” اانشائیہ کی بنیاد“اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے تو” نگاہ اور نقطے“ میں شامل مقالات علم و حکمت سے بھرپور ہیں۔بطور مترجم ڈاکٹر سلیم اختر نے منفرد مضامین پر قلم آ زمائی کی جن میں ” روز انہ چو بیس گھنٹے کیسے زندہ رہاجائے“،”سستائیے اور زندگی بڑھا ئیے“ شامل ہیں۔
آ پ نے ان موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جو ہارے معاشرے میں ٹیبو(Taboo ) کی حثییت رکھتے ہیں اس سلسلے میں” مرد جنس کے آ ئینے میں “ اور ”عورت جنس کے آ ئینے میں“ آ پ کی مترجمہ کتب ہیں۔ اس کے علاوہ” شادی، جنس اور جذبات “ اور ”عورت،جنس اور جذبات“ کے موضوع پر بھی کتب تحریر کیں۔
بلاشبہ ڈاکٹر سلیم اختر ایک عہد ساز شخصیت ہیں آ نے والے دور اردو زبان و ادب کا قار ی اور محقق جب بھی ڈاکٹر سلیم اختر کا مطالعہ کریں گے ان کی ذات کا کوئی نہ کوئی نیا پہلوضرور سامنے آ ئے گا اور جلد اردو ادب میں سلیمیات کے نئے باب کا اضافہ ہوگا۔
لکھاری کے بارے میں :-
آ صف مسعودپی ایچ ڈی سکالرشکرگڑھ