انقرہ: ترکی کی افواج نے اپنی سرحدوں کے قریب شام سے متصل علاقوں میں فوجی کْمک میں اضافہ اور عفرین میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں ایک عسکری قافلہ جس میں بکتربند گاڑیاں اور فوجی شامل ہیں, ترکی کے جنوب مشرق میں واقع صوبے شانلی اورفہ پہنچ گیا ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق یہ قافلہ بعد ازاں غازی عنتاب کی جانب روانہ ہو گا۔اس کے علاوہ جنوبی صوبے ہتائے میں بھی فوجیوں کو لے جانے والی بکتربند گاڑیاں عسکری ساز و سامان کے ساتھ پہنچیں۔ترکی کا یہ منصوبہ امریکا کے زیر قیادت داعش کے خلاف سرگرم بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے سرحدی فورس کی تشکیل کے بعد سامنے آیا ہے، اس فورس کی سربراہی کرد گروپوں کے پاس ہے۔
ترکی کے صدر نے بین الاقوامی اتحاد کے اس اقدام کو باعثِ تشویش اور ناقابل قبول قرار دیا۔مذکورہ فورس 30 ہزار ارکان پر مشتمل ہو گی جن میں کم از کم نصف کا تعلّق سیریئن ڈیموکریٹک فورسز سے ہے۔ اس فورس کو ترکی اور عراق کے ساتھ شام کی سرحدوں پر تعینات کیا جائے گا۔اسی طرح بین الاقوامی اتحاد اس فورس کی تربیت کی ذمّے داری سنبھالے گا اور اْن کرد گروپوں کو تیار کرے گا جو شام ترکی سرحد پر چیک پوائنٹس کے انتظامی امور سنبھالیں گے۔ اس سرحد کی لمبائی 820 کلومیٹر ہے۔
دوسری جانب ترکی کی فوج کے توپ خانوں نے عفرین میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے دھمکی دی تھی کہ اْن کے ملک کی سرحد کے نزدیک مسلح کردوں کی موجودگی نہیں ہونا چاہیّے۔