باپ امریکا کا نائب صدر اور بیٹا ایک بڑی ریاست کا اٹارنی جنرل لیکن کینسر کے علاج کے لیے باپ بیٹے اپنا گھر بیچنے پر مجبور ہو گئے۔امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے سے صرف چند روز قبل انکشاف کیا ھے کہ دو سال قبل جب اس کے جواں سال بیٹے کو کینسر کے مرض نے گھر لیا تو وہ اس کے علاج کیلئے پیسے پیسے کا محتاج ہوگیا۔ اس مقصد کیلئے اس نے اپنا واحد اثاثہ جو کہ 4 ہزار سکوائر فٹ گھر تھا، بیچنے کا فیصلہ کرلیا۔ قرض وہ اس لئے نہ لے سکا کیونکہ ایک تو اس کی شرائط بہت سخت تھیں، دوسرا اس کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ وہ اپنی مدت ملازمت کے بعد بھی قرض کی قسطیں ادا کرسکتا۔گھر کا سودا تقریباً ہو چکا تھا کہ صدر ابامہ کو کسی طرح پتہ چل گیا اور اس نے اپنے ذاتی بنک اکاؤنٹ سے جو بائیڈن کی مدد کرکے اس کا گھر بیچنے سے بچا لیا۔لیکن مئی 2015میں بائیڈن کا بیٹا کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ نہ کرسکا اور دنیا سے چلا گیا۔یہ کوئی نسیم حجازی کے ناول کی داستان نہیں بلکہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کے نائب صدر کی بالکل سچی کہانی ھے۔
دنیا کی سپر پاور امریکہ آج انہی تعلیمات پر عمل پیرا ہے جو تعلیمات آج سے 14 سو سال پہلے ہمیں پیغمبر اسلام ﷺ بتا چکے ہیں۔ دنیا کے مفکر ین و مد برین ورطہِ حیرت میں گم ہیں کہ جہاں میں انقلاب لاکر ،انسانوں کو تعلق باللہ سے مستحکم کرنے والے اور بڑے بڑے نامور حکمرانوں کے ذہنوں پر رعب و دبدبہ پانے والے آمنہ کے لال حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے گھر توتین تین دن تک فاقے رہتے ،عیش و عشرت تو درکنار دو وقت کا کھانا میسر نہ آتا، کپڑوں میں اصراف تو درکنار بعض اوقات ستر ڈھانپنے تک اکتفا فرماتے ۔جب خود ماڈل بن کر اپنے خدا کے وضع کئے اصول حکمرانی پر عمل کر کے کردار لازوال کو دنیا کے سامنے رکھا تو معاشرہ عدل و انصاف سے مہکنے لگا۔ عورت کی عزت محفوظ ہو گئی ۔مال و دولت کو ضرورت کی حد تک محسوس کیا جانے لگا۔ قتل نام کی چیز دور دور تک نظر نہ آتی ۔احترام انسانیت ،معاشرتی امن ،اقتصادی ترقی ،معاشی خوشحالی اور اطاعت امیر کا جذبہ پروان چڑھا ۔جس سے انسانیت کو معراج نصیب ہوئی ۔ مگر آج مسلم دنیا اصولِ حکمرانی کا جذبہ پسِ پشت ڈال کر قیصرو کسریٰ کی پر تعیش زندگی کی طرف راغب ہو گئی ۔ جمہوریت کے نام پر قتل و غارت گری ،قیامِ امن کے نام پر تباہی ،ترقی کے نام پر بے حیائی ،عدل کے نام پر خون کی ہولی اور ریاست میں قانون کے نفاذ کے نام پر آمرانہ فکر کا تسلط معمول بن گیاہے۔
حکمرانوں نے عجز و انکساری چھوڑ کر تکبر و بربریت کو شعار بنا لیا ہے ۔ایک وقت کے کھانے پر کروڑوں روپے خرچ کر کے منوں کھانے ضائع کرنا جبکہ اسی ملک کی عوام روٹی کے نوالے کو ترستے نظر آتے ہیں ۔قانون امیر کا غلام اور ترقی امیر کی لونڈی نظر آتی ہے ۔دولت امراءکے گرد طواف کرتی دکھائی دیتی ہے ۔حکمرانوں نے اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لئے اصول انسانیت اور فکر آخرت کو نظر انداز کر کے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگین کر رکھا ہے ۔اسلام کے تحفظ کے لئے آوازیں بند جبکہ سیاست دانوں کی ناموس پر حملہ ہو تو دنیا میں طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔
وہ تعلیمات جو جن پر مسلمان حکمرانوں نے عمل پیرا ہونا تھا آج دشمن انہیں تعلیمات کواپنا کر سپر پاور بن چکا ہے۔کیا مملکت اسلامہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی ایک مسلمان ملک کے حکمران ایسی 'کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہونگے جیسی بائیڈن کی ہے؟ کیا امریکی نائب صدر بنکوں سے قرضہ لے کر معاف نہیں کروا سکتا تھا؟کیا امریکی نائب صدر کا کوئی دوست میاں منشا اور ملک ریاض نہیں تھا جو اسے اربوں کی پراپرٹی بغیر کسی ' لالچ کے دے دیتا؟کیا امریکی نائب صدر اتنا نکما اور بیوقوف تھا کہ وہ پانامہ میں آف شور کمپنی تک نہ بنا سکتا؟کیا امریکی نائب صدر کا بیٹا حسن نواز سے بھی گیا گزار اور فارغ تھا جو 16 سال کی عمر میں پارک لین جیسے مہنگے علاقے میں اربوں ڈالر کی جائیداد بنا چکا تھا؟کیا امریکی نائب صدر کے پاس کوئی مولانا فضل الرحمان نہیں تھا جو اسے کرپشن کو حلال کرنے کے 'شرعی طریقے سمجھا سکتا اور اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرسکتا؟کیا امریکی نائب صدر کے پا س پاکستانی حکمرانوں جیسے صوابدیدی اختیارات نہیں جن کہ تحت جب چاھے اربوں روپے کے ذاتی جہاز خرید سکیں، 35 لاکھ روپے کا ڈنر کرسکیں، سرکاری خرچ پر وزیراعظم کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے خرچ کرسکیں؟ اور پھر انہی صوابدیدی اختیارات کے تحت چند کروڑ اپنی جیب میں ڈال کر ' اللہ تیرا شکر ھے کہہ سکیں؟جو بائیڈن اتنا نالائق تھا کہ اپنا کوئی بزنس کوئی مِل بھی نہ بنا سکا؟
اگر ان سب کا جواب ہاں میں ہے تو ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ ہم ایسے حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کا اسلام سے محظ ایک کلمہ کا تعلق ہے جو اسلامی تعلیمات کواپنانا تو کیا شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ آقا دوجہاں ﷺ نے اپنا دورِ حکمرانی کیسے گزارا۔کرپشن ، غنڈاگردی، لوٹ مار ، ناا نصافی جن جن برایئوں کے ذمہ دار یہ حکمران ہیں ان میں برابر حصہ ہمارا بھی ہے ہم ہی ہیں جو ان کو اسلامی نظریہ پر بنائے جانے والے ملک کی کمان تھما دیتے ہیں۔ ہمیں باحیثیت قوم خود کو بدلنا ہو گا اس سے پہلے کہ اللہ کا عذاب ہم پر آن پہنچے۔نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے بارے میں ساحر لدھیانوی نے کیا خوب لکھا تھا:
جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیںکیا؟
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا؟
کہ نسلِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اسی لیے مالی نے خوںسے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
احمدحسن نیو ٹی وی کے سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں اور اردو بلاگر ہیں.