شور و غل کے بعد بالآخر 8فروری کو انتخابات ہوہی گئے، جبکہ سینٹ پاکستان میں کچھ سینٹرز، مولانا فضل الرحمان بھی اسی فہرست میں شامل تھے کہ انتخابات التوا کے بعد کئے جائیں وجہ بتائی جارہی تھی کہ امن و امان کا خطرہ ہے، امن و امان قائم رکھنے کیلئے مسلح افواج دہشت گردوں سے نبردآزما تھی اور ہے مسلح افواج کے نوجوان اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دیکر ملک کا امن و امان خراب کرنے والے کے خلاف موت کے فرشتے ہیں چاہے وہ اندرونی دہشت گردی ہو یا بیرونی ، دراصل اندرونی دہشت گردی میں بھی بیرونی ہاتھ ہوتے ہیں جنہیں پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا 25 کرو ڑ آبادی والا یہ ملک ان شااللہ ترقی کی طر ف گامزن ہوگا ، مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے پاس ایماندار قیادت کا شدید فقدان ہے ، انتخابات سے قبل ہی شور و غو غا تھا کہ لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جارہی اگر انکا دعویٰ صحیح تھا یہ آزاد کامیاب جن کا پی ٹی آئی دعویٰ کر رہی ہے وہ نشستیں کہاں سے آئیں؟؟، جبکہ قارئین کو بخوبی علم ہے کہ یہ ’’ آزاد‘‘ تو ہمیشہ ہر انتخابات میں ہوتے ہیں اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ سب اس جماعت سے منسلک ہیں یہ ہمارے قانون کی ستم ظریفی ہے کہ جن لوگوں کے خلاف 9 مئی کی شرمناک دہشت گردی کے ثبوت تھے انہیں بھی انتخابات لڑنے کی اجازت تھی جنکا بیانیہ صرف اور صرف ریاست اور عسکری قیادت کے خلاف تھا انکا طرز حکومت بھی انکے دور میں ایسا تھا کہ انکے علاوہ پوری دنیا چور اور نالائق ہے جبکہ انہوںنے جسطرح حکومت چلائی اس نے اس ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا، انکا سوشل میڈیا اتنا زہریلا ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کی ساری خرابیاں خاص طور معیشت کی تباہی کا تمام تر الزام اتحادی حکومت پر ڈال دیا، یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی مخالفت کے باوجود آصف علی زرداری نے نواز شریف بھولے بادشاہ کو اتحادی حکومت کا بوجھ اٹھانے پر راضی کرلیا جس نے مسلم لیگ کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔ تحریک انصاف کے وکلا رہنما جنہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کو جیل پہنچانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 180 نشستیں حاصل کرلی ہیں، انکے لئے مشورہ ہے کہ وہ ان 180 متنازع اراکین کو اڈیالہ جیل کے سامنے آکر مظاہرہ کرنے کی دعوت دیں وہاں شائد تیس یا پینتیس ہی جمع ہو سکیں پی ٹی آئی کے وکیل رہنمائوں کی آنکھیں کھل جائینگی تمام الزامات جو انتخابات کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے رہنما بشمول ماڈل آیان علی کے سابقہ وکیل لطیف کھوسہ جو آیان علی کے جرم کو کہتے تھے کہ مسجدکا فنڈ لیکر جارہی تھی، عدالتوں، الیکشن کمیشن میں دائر درخواستیں صرف انہیں کامیاب امیدواروں کے خلاف شکایتیں کر رہے ہیں جن کے خلاف پروپیگنڈہ یا مقدمہ کرکے خبر بنے جسکے لئے rating کے مارے چینلز تیار بیٹھے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن 24اتنے ہی شفاف اور منصفانہ تھے جتنے پہلے تھے ہر انتخاب کے بعد ہارنے والے کیلئے شائد ضروری ہے کہ حالیہ انتخابات کے جو اثرات ہمارے معاشرے پر مرتب ہوئے، اللہ کرے اس انتخابات کے نتیجے میں جلد ہی ہماری جمہوریت اور قومی وحدت مضبوط ہو اور قومی بحران خاتمے کی طرف گامزن ہو۔ گزشتہ دو دنوں میں پاکستان کی تاریخ میں چار پریس کانفرنسیں ایسی ہوئی ہیں جو تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں پہلی پریس کانفرنس نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑکی جس میں انہوں نے انتخابات میں بے ایمانیوں کے حوالوں کو مکمل طور پر صرف پروپیگنڈہ کہا، مضبوط حوالے دیئے کہ سعد رفیق، ثناء اللہ اور دیگر مسلم لیگی یا پی پی پی کے معروف لوگ کیسے شکست کھا گئے، انہوں نے غیرملکی میڈیا اور حکومتوں کو دو ٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کے انتخابات ہمارا اندرونی معاملہ ہے ہمارے ہاں ادارے موجود ہیں جو اپنی ذمہ داریاں نبھا سکتے ہیں ہم کسی کو جواب دہ نہیں، دوسری پریس کانفرنس سابق وزیر اعظم مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کی جس میں انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کے آزاد اراکین اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کر دیں تو مسلم لیگ ن کو حزب اختلاف میں بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ تیسری ایک نوجوان بھٹو خاندان کے فرزند بلاول زرداری کی پریس کانفرنس جس میں انہوں نے وزارت اعظمی کیلئے مسلم لیگی امیدوار کی مکمل حمایت کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا اور کابینہ میں شمولیت سے انکار کیا ( یہ بعد کی بات ہے کہ کیا ہو گا، شہباز شریف راضی کر لینگے)، اور خواہش ظاہر کی کہ صدارت کیلئے انکے والد آصف علی زرداری ہوں۔ تیسری پریس کانفرنس جس نے تمام افواہوں کو دم توڑنے پر مجبور کیا وہ تمام جماعتوں کی چوہدری شجاعت کی سربراہی میں ملک کی ابتر صورتحال کو بہتری کی طرف لیجانے کیلئے ایک ساتھ ہوکر مسلم لیگ ن کی حمایت کی تھی، اس مشترکہ پریس کانفرنس میں تحریک انصاف ہمیشہ کی طرح کسی کے ساتھ نہیں بیٹھی انکے سربراہ جیل سے بیٹھ کر اپنی ہٹ دھرمی کہیں یا بیانیہ پر قائم رہتے ہوئے کسی کے ساتھ ملنے کو تیار نہیں اوراپنے جنگ و جدل، ریاست مخالف بیانیہ پر قائم ہیں، انکی وہ مثال ہے کہ ”انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند“ وہ صرف اور صرف عسکری قیادت سے بات کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ بھول گئے کہ اب عسکری قیادت وہ نہیں جنکے ذریعے وہ اقتدار میں آئے تھے اس قیادت کا دعوی ہے کہ اسکا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں وہ ملک میں استحکام اور ترقی کے خواہش مند ہیں۔ ملک کی معیشت اور استحکام کیلئے جہاں بلاول نے اپنی وزارت اعظمی کی خواہش کو اپنے والد کی صدارت پر قربان کیا وہیں ایک باپ ( میاں نواز شریف ) نے اپنی بیٹی مریم نواز کی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے قربان کردیا ۔ مشترکہ پریس کانفرنس سے پاکستان کے عوام جو ملک میں استحکام اور معاشی ترقی کے خواہاں ہیں انکی آنکھوں میںکچھ چمک آگئی ہے اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کے پچیس کروڑ عوام نے ان سے مثبت امیدیںلگالی ہیں۔ تحریک انصاف کے زعماء یک نشستی جماعتوں کیساتھ اتحاد کے خواہاں ہیں مگر وہ ”صفر جمع صفر“ حاصل صفر کے علاوہ کچھ نہیں، قیدی نمبر 840 نے گنڈہ پور کر سرحد میں وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کر کے اپنی آئندہ کی سیاست ”میں نہ مانوں“ کا پیغام دے دیا ہے جھگڑوں کی سیاست نے اس ملک کے عوام اور معیشت، بیرون ملک پاکستان کے نام کو مایوسی کی حد تک پہنچایا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہ ہوگا ۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور بیانات پاکستانی سیاست کو ایک اور بنگلہ دیش سے (خدا نخواستہ ) تشبیہہ دے رہے ہیں مگر وہ بھول جائیں چونکہ مشرقی پاکستان موجودہ پاکستان سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر تھا۔ تحریک انصاف نے تعلیم سے نابلد لوگوں کو مسلمانوںکی سب سے بڑی کتاب قرآن کو اٹھوا کر اپنے ملک دشمن بیانیہ پر حلف لیا کچھ جگہوں پر جو حلف اٹھانے اور حلف لینے والے دونوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ اس وقت میرے ملک کو معیشت، بیرون ملک پاکستان کا عزت و احترام، ملک پر قرضے، بلوچستان میں اندرونی خلفشار جہاں کسی غیر مقامی کو ملازمت بھی نہیں کرنے دی جاتی، اس اندرونی خلفشار میں بیرونی ہاتھ بھی نمایا ں جو روز روز ہماری آپس کی جنگ و جدل کو دیکھ کر کہتے ہیں ہمیں پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہیں وہاں کی سیاسی جماعتیں از خود ہمارا کام کر رہی ہیں۔ اب خدارا جو مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا گیا ہے اس سے عوام مطمئن ہیں انہیں اب دھوکہ دیا گیا تو ہمارا نام نہ ہوگا داستانوں میں ۔ ( خدانخواستہ )
حب الوطنی کا تقاضا
12:21 PM, 15 Feb, 2024