حالیہ انتخابات کے نتائج اہل بصیرت کے اندازوں اور قیاس آرائیوں سے مختلف نہیں ہیں مگر پاکستان مسلم لیگ ن شاید اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ نواز شریف کی وطن واپسی اور چوتھی بار وزیراعظم کا بیانیہ اور اس بیانیے سے وابستہ پر اعتمادی نے عام آدمی کے ذہن میں پاپولر کاؤنٹر Narrative واضح کر دیا ’’جس کو ساڈی گل ہو گئی اے‘‘ کی شکل دے دی گئی۔ یہ بات ن لیگ کے خلاف بیک فائر ہو گئی عوام نے اس کو پسند نہیں کیا۔ اگر ن لیگ بھاری اکثریت کے زعم کا شکار نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی چوتھی بار وزیراعظم جیسا پری پول نعرہ تشکیل نہ دیتے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف تھی جن کا لیڈر جیل میں تھا آدھی سے زیادہ قیادت منحرف ہو کر پارٹی چھوڑ چکی تھی ان کی طرف سے کوئی جلسہ تھا اور نہ ریلی جو امیدوار حصہ لے رہے تھے وہ بھی روپوش تھے مگر پارٹی نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو دوسری پارٹیاں تمام سہولتوں کے باوجود ان تک نہ پہنچ سکیں یہاں تک کہ پارٹی کے پاس اپنا انتخابی نشان بلکہ نام و نشان تک باقی نہیں تھا۔
ن لیگ والے اس قدر پر اعتماد تھے کہ انہوں نے انتخابی مہم اور انتخابی منشور تک نشر کرنے میں بہت تاخیر کر دی۔ الیکشن کمیشن کی واضح ہدایات تھی کہ سیاسی پارٹیوں کو اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کی اجازت نہیں ہو گی مگر ن لیگ خاص طو رپر نواز شریف بہ نفس نفیس اور مریم نواز نے اپنی تقریروں میں بھرپور شعلہ بیانی سے کام لیا یہ بات بھی ان کے خلاف چلی گئی۔ ن لیگ کا انداز سیاست اور طرز بیان 1990ء والی دہائی کی یاد دلاتا رہا وہ بھی ان کے کام نہ آیا۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے دو سابق ارکان قومی اسمبلی راجہ ریاض اور نواب شیر وسیر ایسی جوڑی تھی جنہوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا یہ دونوں تحریک انصاف چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوئے تھے تحریک انصاف چھوڑنے اور ن لیگ کو اقتدار دلانے میں ان کا سازشی کردار تھا مگر نواز شریف بہ ضد تھے کہ ہم نے ان دونوں کو ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا ہے چنانچہ ان دونوں کو ان کی تحریک انصاف سے بے وفائی اور ن لیگ سے وفاداری کے عوض ٹکٹ دیے گئے جو دونوں بری طرح ہار گئے نہ صرف ہار گئے بلکہ انہوں نے ن لیگ کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ نواب شیر کو جس امیدوار رائے حیدر نے شکست دی ہے یہ ن لیگ کے ٹکٹ کا منتظر تھا مگر ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے مخالف کیمپ میں جانے پر مجبور ہوا تھا۔ ن لیگ نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا کیونکہ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کے موقع پر جن 22 ارکان صوبائی اسمبلی نے اپنی وفاداری تبدیلی کی تھی ضمنی الیکشن میں ن لیگ نے ان سب کے سر پر دست شفقت رکھ کر ٹکٹ دیئے اور ان میں سے ایک بھی کامیاب نہ ہوا اس کے باوجود ن لیگ نے راجہ ریاض اور نواب شیر کے معاملے اصلاح احوال سے انکار کیا اور عوام نے اپنا فیصلہ بر خلاف دیا۔
ایک خاص بات استحکام پاکستان پارٹی تھی جو ایسے Electables پر مشتمل تھا جن کی تاریخ ہی یہ رہی ہے کہ وہ سودے بازی اور ہارس ٹریڈنگ کا پرانا تجربہ رکھتے تھے ن لیگ نے حیر ت انگیز طور پر الیکشن سے پہلے ہی ان سے اتحاد کر لیا یہ ایک ایسی سٹے بازی تھی جس نے ن لیگ کو گہرا صدمہ پہنچایا کیونکہ یہ سارے Electables سوائے علیم خان کے الیکشن میں بری طرح ہار گئے۔ یہ ن لیگ کے لیے برا شگون ضرور ہے مگر پاکستانی جمہوریت کے لیے خوش آئند ہے کہ لالچ اور دھوکے سے وفاداری بدلنے والوں کو عوام نے مسترد کرنا شروع کر دیا ہے۔
ن لیگ کی پرفارمنس متاثر کرنے میں پارٹی پر کرپشن کے الزامات کا جواب نہ دینا بھی ہے۔ میاں صاحب اپنے اوپر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کا جواب دینے سے مکمل گریزاں رہے بلکہ اس کو موضوع ہی نہیں بنایا اس کے بجائے مخالفین پر الزام تراشی سے کام لیا گیا۔ گویا پاکستانی سیاست کے اہم ترین موضوع کو ٹچ ہی نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ ہم برسر اقتدار آکر نیب کو ختم کر دیں گے جس سے عام آدمی یہ سمجھا کہ پارٹی چاہتی ہے کہ کرپشن کے خلاف کوئی قانون ہی نہیں ہونا چاہیے۔
میاں صاحب تواتر سے یہ کہتے رہے کہ ان کے دور میں روٹی 4 روپے کی تھی جوش جذبات میں یہاں تک کہتے تھے کہ ہمیں ووٹ دیں تا کہ پرانی قیمتیں پھر سے واپس لائی جائیں۔ یہ ایک غیر منطقی بات تھی جس پر عوام کو قائل کرنا ممکن نہ تھا۔
ایک اور اہم بات پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت کی کارکردگی تھی جسے میاں نواز شریف نے بطور حکمت عملی own کرنے سے گریز کیا وہ یہی شو کرتے رہے جیسے PDM سے ان کا کوئی تعلق نہیں یہ حقیقت سے فرار والی بات تھی جسے عوام نے ماننے سے انکار کر دیا۔
ویسے تو ہر وجہ اور ہر سبب ہی اپنی جگہ valid ہے لیکن ن لیگ کو عوام نے مقتدرہ کی جماعت کے طور پر لیا جبکہ تحریک انصاف کو Anti Status Quo پارٹی کی شناخت مل گئی۔ کسی زمانے میں جماعت اسلامی کو اسٹیبلشمنٹ کی B ٹیم کہا جاتا تھا حالیہ سیاسی تاریخ میں B ٹیم کا یہ امیج اس وقت ن لیگ پر تھوپا جا چکا ہے جس کی وجہ سے عوام میں ان کی پذیرائی نہیں ہوئی۔
جب اتنی ڈھیر ساری وجوہات ایک ساتھ اکٹھی ہو جائیں تو یہ پیچیدگی ناقابل بیان ہو جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ سیاست میں موروثیت کا فیکٹر ایک ایسا پہلو تھا جس پر ن لیگ کے اپنے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فیملی پارٹی کہہ کر پارٹی چھوڑ دی تھی۔ ن لیگ کی اس صفت کی بنا پر عوام نے غیر موروثی پارٹی کا رخ کیا۔
اب جبکہ مریم نواز کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب امیدوار ڈیکلیئر کیا جا چکا ہے تو میاں صاحب کے لیے وزیراعظم کی سیٹ پر بیٹھنا موروثیت کو مزید تقویت دینے کا باعث ہے۔ ان حالات میں نوا زشریف صاحب کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ چوتھی بار وزیراعظم بن جاتے یا وہ سیاست میں اپنی جانشینی کو یقینی بنانے کے لیے مریم نواز کو جانشین بنانے کا پراسیس شروع کرتے تا کہ اس دفعہ پنجاب کی حکمرانی کے ذریعے اگلی دفعہ ان کے لیے وزیراعظم کی کرسی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ کیونکہ اگر وہ مریم کو وزیراعلیٰ اور خود کو وزیراعظم بنا لیتے تو ان کی اپنی فیملی اور ان کی اپنی پارٹی میں تنازعات شروع ہو جاتے شاہد خاقان کی مثال ان کے سامنے ہے۔ میاں صاحب نے بڑا مشکل فیصلہ کرتے ہوئے خود کو وزیراعظم بننے سے روک کر مریم کو آگے لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ن لیگ کی سیاسی ساکھ مضبوط ہونے جا رہی ہے۔ اگر پارٹی نے خود احتسابی کا عمل شروع نہ کیا تو ان کی پرواز ناہموار ہو سکتی ہے۔ اگلے الیکشن میں ہو سکتا ہے وہ اس سے بھی مزید نیچے آجائیں۔