لاہور: محبت اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو شعر کی زبان میں بیان کرنے والےمرزا بیگ اسد اللہ غالب کو دنیا سے گزرے155برس بیت گئے۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
مرزا اسد اللہ خان غالب ستائیس دسمبر 1797 کوآگرہ میں پیدا ہوئے اور لڑکپن سے ہی شاعری کا آغاز کیا مگر زندگی کی تلخیوں نے عمر بھر ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ رشتہ ازداواج سے منسلک ہونے کے بعد غالب دہلی منتقل ہوگئے۔غالب نے اردو میں دیوان لکھے مگر ہمیشہ ان کے دل کے زیادہ قریب فارسی شاعری ہی رہی۔
زندگی کے نشیب و فراز میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا، مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر انہوں نے شاہی دربار کی ملازمت اختیار کی اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے کی ملازمت بھی کی۔انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونکی اور اسے زندگی کی حرارت بخشی کر انسانی نفسیات کو اشعار کا لباس پہنایا۔
غالب کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اورزندگی سے وابستگی شدت سےنظر آتی ہے، رندی اور تصوف کے باب بھی ہیں لیکن اپنے کلام کی شوخی پر تو وہ خود بھی مرمٹتے تھے۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستاے کیوں
15فروری 1869 کو اردو کے اس عہد ساز شاعر نے داعی اجل کو لبیک کہا اور خالق حقیقی سے جا ملے۔ جب تک اردو زندہ ہے مرزا غالب کا نام بھی زندہ و جاوید رہے گااور جب تک اردو شاعری زندہ ہے، غالب کا نام ہی غالب رہے گا۔