اسلام آباد:بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے حکومت سے سرکاری کمپنیوں کا آڈٹ کرانیکا مطالبہ کر دیا ،5 ہزار ارب کے خسارہ کے بعد آئی ایم ایف کا کہنا ہے سرکاری کمپنیوں کا آڈٹ ضروری ہے ۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں سرکاری کمپنیوں کی گورننس اور آپریشنز بل 2021 پر غور کیا گیا، بل کے تحت حکومت سرکاری کمپنیوں کی کارکردگی صرف چیک کرسکے گی، کمپنیز کے بورڈ متعلقہ وزارت سے مشاورت کریں گے لیکن اپنے معاملات میں مکمل خود مختار ہوں گے، کمپنیاں اپنے اہداف بھی خود ہی طے کریں گی، حکومت کا کمپنیاں چلانے میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔
ن لیگ کی عائشہ غوث پاشا نے سوال کیا کہ سرکاری کمپنیوں کی اکثریت نقصان میں ہیں،کیا ان کی نجکاری کی جائیگی؟ حکومت کے اس مسودہ قانون کا کیا مقصد ہے؟ پیپلز پارٹی کے نوید قمرکا کہنا تھا کہ یہ قانون آئی ایم ایف کی ہدایات پر لایا جا رہا ہے۔ حکام وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ سینٹرل مانیٹرنگ نظام صرف کمپنیوں کی پرفارمنس چیک کریگا، کمپنیاں اپنے اہداف خود مقرر اور وزارت سے بھی سالانہ پروگرام پر مشاورت کریں گی، ان کمپنیوں کے بورڈ مکمل خود مختار ہوں گے، وزارت خزانہ کا ان کمپنیوں کو چلانے میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔
پیپلز پارٹی کی حنا ربانی کھرکا کہنا تھا کہ میرا تجربہ ہے خود مختار بورڈ کا صرف دعویٰ ہوتا ہے، عوام کا پیسا ہے، بتائیں یہ سرکاری کمپنیاں سالانہ کتنا نقصان کررہی ہیں؟حکام وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم کمپنیوں کو چلائیں گے نہیں صرف ان کیلئے معیار مقرر کریں گے، 200 کمپنیاں ہیں جنہیں 20 وزارتیں چلاتی ہیں، سال 19-2018 میں ان کمپنیوں نے 145 ارب روپیکانقصان کیا، زیادہ نقصان ڈسکوز ، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کرتی ہیں، زیادہ منافع او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کماتی ہیں۔