حکومت اور اتحاد

09:19 AM, 15 Feb, 2022

نیوویب ڈیسک

حکومت کے خلاف اپوزیشن نے محاذ بنا لیا ہے جس نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر متفق ہیں جبکہ پی ڈی ایم اور دیگر جماعتوں کا فیصلہ بھی اچکا ہے۔ اپوزیشن کی ملاقاتیں حکومتی اتحادیوں سے تیزی سے جاری ہیں اور کس طرح حکومت کے خلاف حتمی اور فوری فیصلہ کرنا ہے اس پر سوچ بچار جاری ہے۔
ماضی میں بھی اپوزیشن نے اسی طرح کے اقدامات اٹھائے تھے اور حکومت کو گرانے کی کوشش کی تھی جوکہ کامیاب نہ ہو سکی۔ اگر اس بار بھی اپوزیشن ناکام ہوجاتی ہے تو حکومت کامیاب ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا کیونکہ ان کے فیصلوں سے ان کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔حکومت اس وقت تک طاقتور ہے جب تک حکومت کے اتحادی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہ اتحادی حکومت کا ساتھ کب تک دیں گے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اپوزیشن نے حکومت پر جوں جوں دباؤ بڑھانا شروع کیا ہے اتحادیوں نے بھی اپنے مستقبل سے منسلک مطالبات سامنے رکھ دیے ہیں۔حکومت کے دو اہم اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم موجودہ صورت حال میں حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ چوہدری برادران کی شہباز شریف سے ہونے والی ملاقات نے بھی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے سات اراکین ہے اور یہ گزشتہ کئی دن سے اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں بھی ہیں۔ایم کیو ایم کی قیادت کی شہباز شریف سے ملاقات ہوئی جس کے بعد نون لیگ نے ان کے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا آپشن رکھا جس کے بعد ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اجلاس رکھا۔نہ صرف یہ بلکہ سینٹ سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کے واک آؤٹ نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا۔بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر عمر احمد زئی نے اختیارات نہ ہونے کا شکوہ بھی کیا بتایا کہ ہمارے لوگ ہم سے ناراض ہیں کیونکہ ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکے، کم سے کم ہمیں  ڈیلیور کرنے ہی دیا جائے۔
جہانگیر ترین گروپ کے بھی متحرک ہونے کی خبریں ہیں۔مولانا فضل الرحمن کی طرف سے بھی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ان کی چوہدری برادران سے ملاقات سے قبل آصف زرداری ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کر چکے تھے۔اپوزیشن سنجیدہ ہے اور حکومت کی صفحوں میں بے چینی پیدا ہے۔ کھلاڑیوں کو انعامات میچ کے اختتام پر دیے جاتے ہیں لیکن کپتان نے تو ٹاپ ٹین اناؤنس کر کے انعامات بھی تقسیم کر دیے جیسے کہ میچ ختم ہو گیا ہو۔میچ ایک صورت میں ختم ہوسکتا ہے۔۔مگر یہ میچ حکومت اور اپوزیشن کا ہے، اگر عمران خان بزدار کو بھی کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ دے دیں تو اوپوزیشن کو میدان میں آنے سے پہلے ہی باہر کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب حکومتی وزرا خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں جیسے کہ فواد چوہدری کہتے ہیں، مسلم لیگ نون فیملی لمیٹڈ پارٹی بن چکی ہے، فضل الرحمن ہماری انشورنس ہیں۔ وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کا یہ ماننا ہے کہ حکومت خلاف اگر تحریک عدم اعتماد لاء جاتی ہے تو وہ اپوزیشن کا آئینی حق ہے جبکہ ہم اس کا مقابلہ کریں گے.بڑے بڑے وزیروں کی بڑی بڑی باتیں ایک طرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا پاکستان کے لیے کبھی کسی نے کچھ بہتر کیا؟ حالیہ منی بجٹ میں ٹیکسز کے انبار لگادیے گئے ہیں اورآج پھر پٹرول کی قیمتوں اضافہ کر کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ہے،حکومتی اس فیصلے سے ملک میں پھر مہنگائی اور بے روزگاری کی لہر میں اضافہ ہو گا۔
مہنگائی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو پارلیمنٹ کے باہر فروخت کر نے لے آئے اور خودکشیاں کر نے پر مجبور ہوچکے ہیں،عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آچکاہے اب وہ اپنی اولاد کو سمندر اور دریا برد کر نے پر مجبور ہو گیا عوام کو غرض ہے تو اپنے حالات کے بہتر ہونے ، مشکلیں آسان ہونے، دو وقت کی روٹی میسر ہونے اور ملک کا پہیہ چلنے سے لے کر روزگار میسر ہونے تک۔رہی بات کہ چوہدری اپوزیشن کو چاے پلائیںگے یا کھانا کھلائیں گے، تو اس کا فیصلہ اسی مہینے ہو جائے گا۔حکومت مشکل میں رہے گی یا مشکلیں آسان ہو جائیں گی، کون رہے گا اور کون جائے گا لگتا ہے اگر حکومت اپنے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتی تو اتحادیوں کو راضی رکنے کیلئے کوئی فیصلہ تو کرے گی کیونکہ ان کی رضامندی میں ہی حکومت کی خیر ہے۔

مزیدخبریں