اسلامو فوبیا کی بدترین قسم بھارت میں نظر آرہی ہے، جہاں جہاں مودی حکومت منظم طریقے سے بھارت کی اقلیتوں کی شناخت اورجمہوریت کوختم کرکے ملک کوایک نسل پرست ہندو ریاست میں تبدیل کر رہی ہے۔ بھارت میں تقریباً30 کروڑ مسلمان ایک مظلوم اقلیت بن کر رہ گئے ہیں۔ بھارت اور بھارتی ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی عالمی معیار کے مطابق مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ مذہبی آزادی میں لباس کے انتخاب کی آزادی بھی شامل ہے۔ منصوبہ بندی کے تحت بھارت میں مسلمان طالبات اورخواتین کوزبردستی لباس کے انتخاب پر مجبور کرکے درحقیقت اْنہیں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ دنیا بھر سے بھارت میں مسلم طالبات کے حجاب پر لگائی جانے والی پابندی کے خلاف آوازیں اْٹھ رہی ہیں۔ایک نہتی مسلمان لڑکی نے جنونی ہندوؤں کے سامنے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگا کر بھارت کے سیکولر ازم کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست کرناٹک میں سکوٹی پر آنے والی باحجاب لڑکی مسکان جب کالج میں داخل ہونے لگی تو وہاں پہلے سے موجود زردمفلروں سے لپیٹے اوباش انتہا پسند ہندوؤں نے مسکان کو کالج میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی اسکے حجاب کا مذاق اڑایا اور نعرے لگانے شروع کر دیے، لیکن سلام ہے باحجاب مسلم بہادر بیٹی مسکان کو جس نیہندو انتہا پسندوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا، اور بغیر خوف وخطران جنونی ہندوؤں کے سامنے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کرتی رہی۔
حجاب تنازع کے بعد انڈین ہندوتوا تنظمیوں نے طلبا میں زعفرانی شالیں تقسیم کی اور تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔شالوں کو ہتھیار کے طور پر لہراتے اپنی کمزوری کو ظلم سے چھپانے کی کوشش انسانیت کی توہین ہے۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی کل آبادی 78 اعشاریہ 8 فی صد ہونے کی وجہ سے ملک کی اکثریتی آبادی کہلاتی ہے جبکہ یہاں مسلمانوں کی کل تعداد تقریباً 30کروڑ ہے جو بھارت کی کل ایک ارب 38 کروڑ کی آبادی کا 14 اعشاریہ 2 فی صد ہونے کے ساتھ یہاں کی دوسری بڑی اکثریت ہے، بھارت وہ ملک ہے جہاں مسلم آبادی ہمیشہ ہی انتہا پسند ہندوؤں کے خطرات سے دوچار رہتی ہے۔ انڈیا میں مودی حکومت کی سرپرستی میں مسلم نفرت پر مبنی جرائم کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ انڈین بھٹکی ہوئی نسل کا بڑا حصہ مسلم نفرت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ بھارت دنیا کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم OIC مردہ گھوڑا بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج 57 مسلمان ملک اور ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان آبادی کے باوجود کشمیر، فلسطین چیچنیا اور بوسنیا میں ہونے والا ظلم روک پائے ہیں اور نہ ہی کوئی مضبوط آواز بلند کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں مگرایک نہتی لڑکی مسکان کی بہادری کو سلام کہ اس نیڈیڑھ ارب مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ مسکان نے نہ صرف ان جنونی ہندوؤں کے سامنے اپنے حجاب کو قائم رکھا بلکہ انکے ہر نعرے کا تنہا اسی شدت کے ساتھ ’اللہ اکبر‘ سے جواب دیتی رہی۔ مسکان کی ’اللہ اکبر‘ کی صدا نے بھارتی اقتدار کے ایوان ہلا کر رکھ دیے ہیں۔ مسکان کا نعرہ ہندو توا کی پیروکار مودی سرکار کے مسلمانوں سمیت بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے ظلم وستم کیخلاف ڈھال کا کام کرے گا۔ کرناٹک تقریباً 20 کروڑ آبادی کا صوبہ ہے جس میں78لاکھ مسلمان آباد ہیں، جس پر پانچ سال سے ایک ’یوگی‘ کی حکومت ہے۔جو تمام تر ریاستی وسائل ریاست کی تاریخی ثقافت مٹانے پر خرچ کررہا ہے اورکئی شہروں کے نام صرف اسلام کی یاد مٹانے کی غرض سے تبدیل کرچکا ہے۔ لیکن یادرہے کہ مسکان کا شہر اودوپی ٹیپو سلطان کی ریاست میسور کا حصہ تھا، اور انگریز کے خلاف مزاحمت اور جہاد کی علامت کے طور پر آج بھی مثال ہے۔ اسی ٹیپو سلطان کی میراث کا پرچم اسکے شہر کی نہتی لڑکی مسکان نے اٹھایا ہے۔
حجاب قرآنی حکم،مسلم بیٹیوں کی شناخت اور لازم ہے، اوروہ حجاب پہنتی رہیں گی۔سکارف کا تحفظ مسلم بیٹیوں کا بنیادی آئینی حق ہے، جو انڈیا کا آئین بھی انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حجاب پر پابندی انڈین آئین کے ارٹیکل 14, 15, 19 اور 25(1) کی خلاف ورزی ہے۔ انڈیا کامسلم لڑکیوں کوتعلیم سے دور رکھناانکے بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس ’بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ‘ کے نعرے کی جگہ عملا ’مسلم بیٹی ہٹاؤ‘ پر عمل کررہے ہیں۔انڈیا نیشنل اسٹیٹکس آفس کے اعدادوشمار کے مطابق 21.9 % مسلم لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔حجاب پر پابندی انڈین سپریم کورٹ اور کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔عالمی ادارے فیفا، انٹرنیشنل باسکٹ بال اور نوبل پیس پرائیز میں بھی حجاب پر پابندی نہ ہے۔ دنیا بھر کے192 ممالک میں حجاب پر کوئی پابندی نہ ہے۔ مودی حکومت میں انڈیا مسلم کیلئے تباہ کن اورخوفناک چہرہ ہے۔مسلم طالبات کو حجاب کی آڑ میں تعلیم سے محروم کرنا جرم ہے۔ انڈین حکومت لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روک کر انکے تعلیم کے حق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔مسلم طالبات کوپسماندہ رکھنے کی یہ کوشش روکی جانی چاہیے۔
بہادر بیٹی مسکان نے پوری دنیا کے مسلم اور عالمی برادری کو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا غیر انسانی سلوک کی طرف عالمی توجہ مبذول کروائی ہے۔ عالمی طاقتیں UNO, OIC سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیںیں بھارتی حکومت سے اس زیادتی کا ازالہ کرائیں۔ عالمی اداروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ آواز بلند کریں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کمیشن کو مسکان کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے۔ او آئی سی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر فوری اجلاس بلائے اور بھارت کو سخت پیغام دیا جائے۔ مسکان نے جس جرأت اور دلیری کا مظاہرہ کیا ہے، یہ ظلم اور بربریت کے خلاف جدوجہد کی مثال ہے۔ بھارت میں مسلم دشمنی تمام حدود پار کر رہی ہے، مسلمانوں سے انکے جینے کا حق بھی چھینا جارہاہے، لیکن یاد رہے ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔