ایک فلم میں ہیرو ہیروئن کی شادی نہیں ہوتی، جدائی کے فیصلے ہیں اور آخری ملاقات میں ہیرو ہیروئن سے کہتا ہے کہ اتنی بڑی دنیا میں ہمارے دکھ کی کیا حیثیت ہے اور ساتھ ہی کیمرہ مین اس مکالمہ کے دوران پربتوں، جھیلوں، دریاؤں کے تمام مناظر دکھاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ مفادات کی اس رسہ کشی میں طاقتوروں، حکمرانوں، اقتدار اور انصاف کے ایوانوں میں عام آدمی کے دکھ کی حیثیت ہی کیا ہے۔ جن کے جانے کے دن ہیں ان کو عوام لے کر آئے تھے، نہ گھر بھیجنے کی ابھی سکت رکھتے ہیں۔ یہ بوجھ اتار رہے ہیں جنہوں نے یہ قوم کے کندھوں پر مسلط کیا تھا یہ بوجھ اب ان کی کمر بھی اٹھانے سے قاصر ہے۔ پہلے پروپیگنڈہ کیا کہ نئی قیادت نجات دہندہ ہو گی، پھر کارکردگی زیرو ہوئی تو عذر پیش اور پروان ہوا کہ اس کے بعد کون آئے گا یا کس کو لائیں اور اب حکمران ٹولے نے حالات یہ کر دیئے ہیں کہ یہ جائیں کوئی بھی آ جائے ان سے بہتر ہی ہو گا۔ اور ویسے بھی ذمہ داری سونپنا عوام کا بنیادی حق ہے اور موجودہ حکمران آئندہ بھی براجمان رہنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ وہ عوام جو صدارتی نظام، مارشل لا، پارلیمانی نظام دیکھ چکے بلکہ بھگت چکے اور نئی قسم کے ہائبرڈ نظام بھی۔ دراصل عوام تو سمجھے ہوئے ہیں کہ مارشل لا کے علاوہ ہر نظام اچھا ہے اگر اس میں ڈکٹیٹر شپ اور مفاد عامہ کے بجائے ذاتی مفاد نہ ہو۔ جیسا کہ ساری قانون سازی ذاتی مفاد اور اجارہ کے لیے کی جاتی رہی ہے۔ سوائے 1973کے حقیقی آئین کے بہرحال اندرون خانہ بھی ملک کے اندر تو جناب بھٹو صاحب سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو شہید تک اور ان کے سیاسی کا رکنوں کی زندگیاں کام تو آئیں۔ نوازشریف اور بیٹی کی قید، شہبازشریف اور دیگر لوگوں کی قید، پیپلزپارٹی کے تو خیر ووٹروں تک نے عتاب دیکھا۔ یہ اندرون خانہ تھا، چل گیا اب خارجہ حوالے سے بات نہیں بن رہی۔ کہا جاتا رہا کہ پراکسی جنگ پاکستان میں لڑی جائے گی مگر خیر سے یہ بات بھی اس وقت کی ہے جب جنگ اسی سرزمین پر نئے انداز اور ادوار میں داخل ہو چکی تھی۔ اب منہ اٹھایا اور کہہ دیا کہ امریکہ نے ہمیشہ استعمال کیا ہے تو کیا امریکہ کے ڈالر ہم نے استعمال نہیں کیے؟ چائنہ نے تو ملک میں داخل ہوئے بغیر انڈسٹری بند کرا دی اور 23 کروڑ کو کنزیومر سوسائٹی میں بدل دیا ہے اور امریکہ میں تو ہماری مصنوعات جاتی ہیں، چائنہ میںکیا جا رہا ہے؟ خارجہ پالیسی توازن کا نام ہے اور غیر متوازن ذہنیت کبھی توازن قائم نہیں رکھ سکتی۔ حکومتوں کا بننا ٹوٹنا اب شاید عوام کے اختیار میں ہے نہ عوام شریک ہیں لیکن سہمے ہوئے عوام سوالات اور واہموں میں مبتلا ہیں۔ عدالت کا بہت ہی خوش آئند فیصلہ ہے کہ فردوس عاشق اعوان اور فواد چودھری جسٹس سیٹھ وقار، جن کے لیے میں نے کالم لکھا تھا
کہ ’’سیٹھ وقار یاد آتے رہیں گے‘‘، کی قبر پر جا کر معافی مانگیں۔ گو کہ یہ علامتی سزا ہے ورنہ سزا تو کچھ اور آنا چاہئے تھی۔ عوام سوچتے ہیںکہ مولوی تمیز الدین کے مقدمہ جسٹس منیر سے لے کر مولوی مشتاق اور پھر انوارالحق تک گریٹ بھٹو کو عدالتی قتل پر علامتی طور پر کوئی ریٹائرڈ ہی سہی عدلیہ کا معزز رکن گریٹ بھٹو کی قبر مبارک پر معافی مانگے گا؟
ضیا الحق کے دور میںکوڑے کھانے والوں، قلعہ بند رہنے والوں، قیدیں کاٹنے والوں میں سے جو زندہ نہیں، ان کی قبروں پر کوئی عدالتی یا مارشل لاء عدالت کا عہدیدار معافی مانگے گا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے سانحہ کارساز کے شہداء کی ارواح کو یہ نظام جواب دے سکے گا؟ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ شہید ہونے والوں کے قتل کا حساب کون دے گا۔ کوئی معافی مانگے گا۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف گوجرانوالہ میں کتیا کو جوتوں کا ہار پہنانے کے بعد ٹرک پر سارے شہر میں جلوس نکالنے پر کوئی معافی مانگے گا؟ موجودہ چار سالہ دور میں جھوٹے مقدمات بنانے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والوں سے کوئی نیب، کوئی ایف آئی اے کوئی عدالتی شخصیت معافی مانگے گی؟
وطن عزیز آج کی دنیا میں تنہائی کا شکار ہے، کیا کوئی مسلط کردہ نااہلوں کی کارکردگی پر قوم سے معافی مانگے گا۔ آج تک غدار قرار دیئے جانے والے محب وطنوں کی عزت تار تار کرنے پر کوئی ادارہ معافی مانگے گا؟
عوام کیلئے بنیادی ضرورتیں حسرتوں میں بدلنے پر کوئی نظام اور اس کے رکھوالوں میں سے معافی مانگے گا۔ عمران خان تو ٹھہرے یُو ٹرن کو اصول ثابت کرنے والے، کیا عمران خان کو ایک موقع دو، صادق اور امین قرار دینے والے اور نجات دہندہ قرار دینے والے، رائے عامہ بنانے والے ’’دانشوروں‘‘ میں سے کوئی قوم سے معافی مانگے گا۔
زرداری صاحب نے جتوئی، صدر اسحاق، لغاری، نوازشریف، مشرف، عمران خان کی قید کاٹی اور اس وقت کاٹی جب اشرافیہ، عدلیہ، میڈیا، اسٹیبلشمنٹ، ملاں اور سب سیاسی مخالفین بابے زرداری کے خلاف تھے، وہ سرخرو ہوئے۔ کیا کوئی دو لفظ معذرت کے زرداری سے کہے گا؟ کیا نوازشریف اور اس کے خاندان سے محترمہ مریم نوازشریف کو والد کی آنکھوں کے سامنے جیل سے گرفتار اور قید کیے رکھنے پر کوئی ادارہ معافی مانگے گا۔ کیا شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو گرفتار رکھنے اور پھر بری ہونے کے بعد کوئی ادارہ معافی مانگے گا۔ اتنے جرائم ہیں زیادتیاں ہیں کہ معافیاں کم پڑ جائیں۔ اس وقت کالم لکھتے ہوئے نجانے معروف صحافی گوہر بٹ، سید عمران، مرتضیٰ سولنگی، افتخار احمد کیوں یاد آ رہے ہیں۔ گوجرانوالہ میں ایم آر ڈی کی تحریک میں گرفتار ی دینے والوں پر تشدد کرنے والوں کے گماشتوں نے جو ظلم کیا، کیا کوئی گماشتہ معافی مانگے گا۔ آج وطن عزیز کے عوام ششدر، سہمے اور ڈرے ہوئے ہیں کہ پہلے کہا تھا، عمران کو ایک موقع دیں۔ موقع دینے والوں نے موقع دیا۔ مگر اس نے لاشے بے کفن دفنوا دیئے، سڑکوں پر آبرو ریزیاں ہو گئیں۔ زندگی موت اور موت حیثیت سے مہنگی ہو گئی مگر عوام پریشان سہمے ہوئے ہیں کہ پھر خرم دستگیر، خواجہ آصف، رانا تنویر، فریال تالپور، ڈاکٹر سومرو، چودھری برادران اور پی ٹی آئی چھوڑنے والے مسلط ہو جائیں گے۔ ہم کب سرخرو ہوں گے؟ کب آئین نافذ ہو گا؟ کب مذہب، ملت، رنگ و نسل زبان کی فروخت بند ہو گی؟ کب انسانیت رائج ہو گی؟ کب قانون کی حکمرانی ہو گی؟ کب مزاج قانون کے تابع ہوں گے؟ کب فرعون کا دور ختم ہو گا؟ کب مظلوم سکھ کا سانس لیں گے اور کب موسیٰ کا عصا ظالمین کی سرکوبی کریگا۔ سہمی ہوئی قوم اور گدھ حکمران طبقے کا کھیل کب تک جاری رہے گا؟ عوام کب تک سہمے، بے بس رہیں گے اور گدھ حکمران طبقے کب تک عوام کے ساکن بدنوں کو نوچتے رہیں گے۔ گوجرانوالہ کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت احمد حقانی میر کے مطابق جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی گدھ حکمرانوں سے نجات ممکن نہیں۔