موجودہ طرز زندگی میں انسانیت کی بڑائی صرف مالداری اور مادی عروج ہے۔ہمارا لٹریچر ہمارا آرٹ اور ہمارا ادب سب یہی تعلیم دیتے ہیں کہ جس کے پاس مادی وسائل زیادہ ہوں اور جو جتنا زیادہ مالدار ہو اتنا ہی وہ شریف ہے۔صرف دولتمند ہی آدمی ہے،غریب آدمی ہی نہیں،آج دُنیا میں سارا فساد اسی طرز فکر اور اسی معیار زندگی کا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص جلد سے جلد مالدار بننا چاہتا ہے اور اس کے لئے جائز اور ناجائز سب طریقے اختیار کرتا ہے اس لئے کہ ہرشخص کی یہ سوچ بن چُکی ہے کہ عزت صرف دولت سے ہی ہے۔
آج دُنیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔کیا آج کسی نے اپنے بچے کو بتایا کہ اصل شرافت اوراخلاق صرف کردار میں ہے۔بچے نے جب سے ہوش سنبھالا آپ کا یہی رویہ دیکھا کہ جو بڑی گاڑی اور پراڈو میں آئے گا وہ عزت اور مرتبے میں بلند ہو گا اور اُس کا پر تپاک استقبال بھی کیا جاتا ہے۔اور جو کوئی کسی چھوٹی سواری پہ آتا ہے اُس سے بے التفاتی برتی جاتی ہے تو اس میں قصور بچے کا نہیں ہے اُس نے جو دیکھا وہی سمجھا اور کیا۔اسی طرح ہماری جمہوریت اور سیاست کی دُنیا میں بھی کسی عام سواری والے کا کوئی کام نہیں کیونکہ ہماری عوام دن رات باتیں تو بہت کرتی ہے مگر وہ بھی اپنے جیسے کسی عام آدمی کو قبول نہیں کرتے اُسی کو قبول کرتے ہیں جس کے پاس پراڈو ہوگی۔اور وہی شخص جو پہلے سے مالدار ہے وہ پھر عوام کے سروں پہ مسلط ہو کر 5 سال عوام کا ہی پیسہ بٹورتے ہوئے عوام کی کھال کھینچتے ہیں اور پھر الیکشن کے قریب جا کر دوبارہ عوام کی بے بسی کو خرید کر اُنہیں بھلا پھسلا کر اپنے جلسے کی کرسیاں اور نعرے لگانے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کے پاس پہلے سے ہی بینک بیلنس اور گاڑیاں تو پھر اس غریب ملک میں ان ایم پی ایز اور ایم این ایز کو اتنی مراعات کیوں؟
جب پورا ملک قرضوں کے تلے دب چُکا ہے اور بہت سے ایسے سرکاری ادارے ہیں جن کی تنخواہیں جب دینے کو نہیں ہوتیں تو قرض لینا پڑتا ہے ایسی حالت میں کیا مراعات دینا درست ہے؟شاید میرے یہ الفاظ میرے قارئین کو پڑھ کر کچھ یاد آیا ہویہ الفاظ کبھی عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے کہے تھے کہ اس ملک میں انقلاب تب آئے گا جب عام لوگ اور پڑھا لکھا طبقہ اسمبلیوں میں پہنچے گا۔یہ بات تو باتوں اور تقاریر تک ہی محدود رہی اور پھر سے انہی پُرانے چہروں کو نئے ٹیگ لگا کر عوام پہ مسلط کر دیا اور اس بے رحمی سے جتنے اس دور اقتدار میں فیصلے کیے گئے اُتنے تو شاید ہی کسی دور میں کیے گئے ہوں۔
روز ایک سے ایک شوشہ سننے کو ملتا ہے ہر کوئی اپنی سیاست چمکانے اور اپنے اپنے غباروں میں ہوا بھر کر ہوا میں روز چھوڑے جاتے ہیںعدم اعتماد کے نام پہ چائے کی پیالی پہ کئی روز ڈسکس ہوتی رہے گی اور مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہے گی اور موجودہ اہم مسائل پہ کسی کی نگاہ بھی نہیں پڑے گی۔
ڈسکس کرنے والی بات تو یہ ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی عوام کی دسترس سے باہر ہوچُکی ہیں ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کا سوچا جا رہا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہر ماہ معمول بن چُکا ہے۔کیونکہ اس گورنمنٹ کی نظر میں اگر کوئی چیز 2روپے یا 3روپے مہنگی ہوتی ہے وہ ان وزیروں کی نظر میں صرف دو روپے یا تین روپے ہوتی ہے مگر اُس کا عوام پہ کتنا بوجھ پڑتا ہے وہ ان لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں کیونکہ ان کے اپنے بینک بیلنس تو بھرے ہوئے بات تو اُن کی بھی درست ہے کہ 3روپے ہی تو بڑھے ہیں۔اب تین روپے کی مد میں عام گھریلو صارفین پہ کیا اثر پڑے گا وہ اب میں بتاتی ہوں۔
کیونکہ اس ہوشربا مہنگائی کے دور میں بجلی کے جھٹکے ناقابل برداشت ہو چُکے ہیں۔بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت جو 2018 میں 12 روپے تھی جو اب بڑھ کر ساڑھے 28روپے ہو چُکی ہے ۔
ابھی ان قیمتوں میں یہاں بریک نہیں لگی بلکہ آئندہ جولائی میں بجلی کی فی یونٹ کی قیمت میں مزید 2.80روپے اضافے کے لیے کیبنٹ کمیٹی برائے توانائی کی منظوری دے دی گئی ہے۔بلوں کی مد میں عوام کو بجلی کے جھٹکے لگیں گے۔اور عام صارف پہ 29ارب کا اضافی بوجھ پڑا یہ تو گور نمنٹ کا کہنا ہے مگر بوجھ اس سے زیاد کا پڑے گا۔ایسے صارف جو 300یونٹ ماہانہ استعمال کرتے ہیں وہ عام صارف کہلاتے ہیں۔جنھیں بجلی کے نرخوں میں خاص رعایت حاصل ہوتی ہے۔ایسے صارفین سنگل فیز میٹر استعمال کرتے ہیں جس میں وہ گرمیوں میں گھر میں ایک ائیر کنڈیشنر چلانے کی بجائے زیادہ سے زیادہ ائیر کولر استعمال کرتے ہیں۔ان صارفین کی تعداد 70فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ مگر 86فیصد بجلی میں سے یہ 31%بجلی استعمال کرتے ہیں۔باقی 51%ان صارفین کی تعداد بنتی ہے جو ماہانہ 300یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرتے ہیں۔
یوں کسی بھی حکومت کے لیے یہ ایک نسبتاً آسان کام ہوتا ہے کہ وہ اس کم آمدنی والے طبقے پر زیادہ بوجھ نہ ڈالے اور انھیں مختلف طرح کے سرچارچز سے بھی بچائے رکھے مگر موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے عوام کے لیے بھی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ اب حالیہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ یہیں نہیں رُکا بلکہ اس میں مزید اضافہ اس لیے بھی ہوگا جو آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی گئی تھی اور گردشی قرضوں میں اضافہ کی وجہ سے اس میں اضافہ لازم ہے اس کا سارا بوجھ عوام پہ ہی ہوگا۔اس کے علاو مہنگی اور نایاب بجلی ہمارے ملک کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنے گی اور اس کا ہماری صنعتوں پہ بہت اثر پڑے گا۔حکومت ایک جانب تو توانائی پر بھاری ٹیکس لگا کر اسے ناقابل برداشت مہنگا کرتی ہے اور جب یہ توانائی صنعتی شعبے کیلئے قابل عمل نہیں رہتی تو پھر تو صنعتوں کو سبسڈی دینا پڑتی ہے یوں مخصوص صنعتی سیکٹر کو تو سبسڈی مل جاتی ہے مگر گھریلو شعبے سمیت وہ بہت سی صعنتیں جنہیں حکومت کسی رو رعایت کے قابل نہیں سمجھتی اُن کے لیے حالات ناگفتہ بہ ہوتے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ جنرل ٹیکس اور پیٹرولیم مصنوعات میں لیوی کا ذکر بطور خاص ہوتا ہے ۔کیونکہ اس میں شامل چھ قسم کے واجبات میں سب سے زیادہ شرح حکومت نے اپنے ٹیکسوں کی رکھی ہے۔اسی طرح بجلی کی قیمتوں پہ عائد ٹیکس کی شرح بھی اُن کے برابر چلی جاتی ہے۔یہ بات تو درست ہے کہ ملک چلانے کے لیے ٹیکس چاہیے ہوتے ہیں اور کوئی بھی ملک اس کے بغیر نہیں چل سکتا مگر ہمارے ہاں ٹیکس کے نظام کی کمزوریوں اور خرابیوں کا بوجھ بھی انہی شعبوں پر ڈال دیا جاتا ہے جو پہلے ہی ٹیکسوں سے چُور ہیں۔تیل،گیس،بجلی،اور اشیائے ضروریہ اس سلسلے میں پہلا ہدف بنتے ہیں۔
مگر ان کا ہدف بننے سے ہر بنیادی ضروریات زندگی پہ اثر پڑتا ہے جس سے اگر کوئی طبقہ اثر انداز ہوتا ہے تو وہ نچلا طبقہ ہے۔ میں تو صرف بجلی کی قیمتوں کی بات کر رہی تھی مگر مزید اگر میں شماریات بیورو کی اگر رپورٹ پہ بات کر وں تو کوکنگ آئل،گھی کی قیمتوں میں تین روپے 52 پیسے مزید اضافہ اس اضافے سے گھی کی قیمت 400 روپے سے اوپر چلی گئی ہے۔ یاد رہے جب ان کی گورنمنٹ آئی تھی تو ایک کلو گھی کے پیکٹ کی قیمت 145ر وپے تھی یہی نہیں نمک جیسی آئٹم کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے غربت ختم کرنی ہے یا غریب کو؟