کالم لکھنے کا سفر ۲۰۰۸ء سے شروع ہوا‘آج چودہ برس بیت گئے۔یہ چودہ برس بہت یادگار رہے‘ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑا‘اچھے اور برے دونوں۔ میڈیائی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور علاقائی اخبار سے ہوتا ہوا یہ کالم ۲۰۱۶ء میں نئی بات تک پہنچ گیا‘نئی بات تک کیسے پہنچا یہ واقعہ بھی بڑا دل چسپ ہے۔ایم اے کے سال دوم میں تھا جب حافظ شفیق الرحمن سے ملاقات ہوئی‘وہ ان دنوں روزنامہ’’نئی بات‘‘میں ادارتی صفحہ دیکھتے تھے‘ ان سے گزارش کی کہ ’’نئی بات‘‘ میںلکھنے کا خواہش مند ہوں‘انھوں نے چند کالم بھیجنے کا کہا اور یوں نئی بات میں چھپنے کا آغازہوالیکن یہ آغازبہت بے قاعدہ اور ناہموارتھا۔یہاں کبھی کالم دس دن بعد چھپتا تو کبھی پندرہ دن بعد‘مگر شائع ہونے لگ گیا۔اسی ناہمواری کے باعث میں دوسرے اخبارات کی جانب دیکھنے پر مجبوررہا۔اسی دوران کئی کالم مختلف قومی اخبارات میں چھپتے رہے مگر ضروری نہیں کہ ان اخبارات کا یہاں ذکر کیا جائے۔ایم۔اے اردو مکمل ہو گیا‘ایک پرائیویٹ کالج کو بطور استاد شعبہ اردو جوائن کر لیا اور ساتھ ہی استاد مکرم پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے میرے کالموں کے لیے محترم عطاء الرحمن صاحب کو فون کیا کہ نوجوان کو اپنے اخبار میں مستقل جگہ دی جائے‘یوں ۲۰۱۶ء میںروزنامہ ’’نئی بات‘‘ میں مستقل لکھنا شروع کیا اور ابھی تک ’’نئی بات‘‘ کے ساتھ وابستہ ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ عطاء صاحب کی محبت تھی کہ انھوں نے ایک نوجوان کو آگے بڑھنے کا موقع دیا‘یہ نہیں سوچا کہ یہ پہلے کس کس قومی اخبار میں لکھ چکا ہے اور کتنی ڈگریاں رکھتا ہے بلکہ انھوں نے مجھے اپنے ادارے میں کھلی بانہوںسے خوش آمدید کہا اور یوں اس ادارے کے ساتھ آج چھ سال بیت گئے‘ اس تعلق سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا‘کئی اہم صحافیوں اور کالم نویسوں کی دوستیاں میسر آئیں‘پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا‘خبر سے کالم کا سفر کتنا مشکل ہے‘اس کا اندازہ بھی ان گزشتہ دس سال میں ہوا۔
آج جب یہ کتاب اشاعت کے مراحل سے گزر رہی ہے تو انتہائی خوشی محسوس کر رہا ہوں۔میرے سینئرز(جن کاکتاب میں تفصیل سے ذکر ہے)نے ہمیشہ میرے سر پہ دستِ شفقت رکھا اور کتاب کی اشاعت تک اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے اور میری کامیابی کے لیے راہیں ہموار کرتے رہے۔میرے کلاس فیلوز اور دوست احباب جنھوں نے ہمیشہ مجھے نیا لکھنے پر آمادہ کیا اور میری حوصلہ افزائی کی‘مجھے کبھی جھکنے اور بکنے نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ چودہ سال میں نہ تو میرا قلم رکا اور نہ ہی کالم‘ایک سفر ہے جو جاری ہے،پر پیچ راستوں اور تندو تیز آندھیوں میں جاری رہنے والا سفرآج منزل کے بہت قریب ہے۔ابھی وقت لگے گا‘کم بھی لگ سکتا ہے اور زیادہ بھی مگر میں خدا کی رحمت‘قارئین کی محبت‘دوستوں کے پیار اور سینئرز کی شفقت سے مایوس نہیں ہوں۔نفرت کرنے والے‘گالیاں دینے والے اور ٹانگیں کھینچنے والے یہ کام کرتے رہ گئے اور میرا حوصلہ بڑھانے والے‘تھپکی دینے والے اور میرا صدقہ اتارنے والے میری کامیابیوں کے لیے دعاگو رہے۔کس کس سینئر اور دوست کا ذکر کروں‘یقین کریں ایک طویل فہرست ہے ‘اور ایسے چاہنے والوں کی بھی خاصی تعداد ہے جن سے کبھی ملانہ دیکھا ،مگر جب کالم پر برقی آراء ملتی رہیں تو نہ پوچھیں کتنا خون بڑھتا تھالہٰذایہ سفر اور اس سفر کی جانب مزید پیش قدمی‘آپ سب دوستوں کی دعائوں کے طفیل ہے۔
گزشتہ کالم میں ذکر ہو چکا کہ کالموں کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لیا گیا ہے‘صرف ایسے کالموں کو ہی اخبار میں جگہ دی گئی جو ’’نئی بات‘‘ میں شائع ہوتے رہے ‘کچھ ایسے کالم بھی کتاب میں شامل کر دیے گئے ہیں جو نامور بلاگ سائٹس پر شائع ہوئے مگر ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ایک گزارش جو مجھے اپنے قارئین سے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ ’’کالم نگری‘‘میں شائع شدہ یہ کالم ‘کالم ہی سمجھے جائیں۔میں نے ان کو لکھتے ہوئے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ اخبار کا قاری عام آدمی بھی ہے‘مجھے اپنی بات ان کو بھی سمجھانی ہے لہٰذاکالم کی زبان ہمیشہ سلیس اور سادہ رکھی‘صحافتی زبان میں اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کی۔ادبی موضوعات کو بھی انتہائی سادہ پیرائے میںبیان کیا‘ کتب اور شخصیات پر لکھے جانے والے کالموں میں بھی زبان کا خاص خیال رکھا گیا تاکہ اپنے قارئین تک میں اپنی بات آسانی سے پہنچا سکوں۔کالموں کو پے درپے پیش کرنے کے بجائے کتاب میں ان کی ابواب بندی کر دی گئی ہے۔ہر کالم کے آخر میں‘کالم کی تاریخ ِ اشاعت اور اخبار کا نام بھی درج کر دیا گیاہے تاکہ یونیورسٹیوں میںتحقیق کرنے والے طالب علموں کے لیے آسانی ہو۔جوکالم کسی ایک موضوع کے دائرے میں محدودنہیں ہوسکتے تھے انھیں ’لخت لخت‘ کے عنوان سے الگ ایک باب میں یکجا کردیاہے ۔شخصیات‘ادب‘سماجیات‘تاریخ اور صحافت سمیت کئی اہم علمی و ادبی موضوعات کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے‘میں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ انھی موضوعات اور ایشوز کو کالموں کا حصہ بنایا جائے جو آپ سب کے لیے اہم ہیں‘آپ کے موضوعات کو ہی کالم کا موضوع سمجھا۔یہاں ایک گزارش کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ کتاب ایک فائونڈیشن نے ذاتی دل چسپی اور خرچے سے شائع کی ہے لہٰذا مجھے بھی رائلٹی کے طور پر چند کتاب ہی مل سکیں گی‘اسی لیے آپ سب دوست اگر کتاب خرید کر پڑھیں گے تو مجھے خوشی بھی ہوگی اور کتاب کلچر کو فروغ بھی ملے گا۔کسی بھی قلم کار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین اور مثبت عمل بھی یہی ہے ۔