اسلام میں نظامِ معیشت کی نوعیت جدید نظامِ معیشت سے قطعی مختلف ہے اسلامی نظامِ معیشت سے مراد کسی منظم معاشرہ میں رہنے والے افراد کی معاشی احتیاجات کی تسکین کا وہ طریقہ کار ہے جو قرآن و سنت کی ہدایت کے تابع ہو۔ ان ہدایات کے مطابق اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ صرف دولت، پیدائشِ دولت اور تقسیم و تبادلہ دولت کا انداز کیا ہو۔ چونکہ اسلامی معیشت کی نوعیت مغربی معاشیات سے بہت حد تک مختلف ہے لہٰذا اسی بنا پر مسلمانوں کے لئے علیحدہ علمی و عملی موضوع یعنی اسلامی معاشیات کی ضرورت اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جدید مغربی معیشت کا ارتقا مغربی معاشرے میں ہوا ہے جب کہ مسلم معاشرہ روحانی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے مغربی معاشرے سے یکسر مختلف ہے۔ اسلامی معیشت میں رزق کے حلال ہونے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اسی لئے مغربی معاشی تجزیوں کا اطلاق مسلمانوں پر کرنا مشکل ہے البتہ کچھ نظریات ایسے ہو سکتے ہیں کہ جن کا اطلاق ہر معاشرے میں ہو سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر مغربی معاشی تجزیہ کی بنیاد اخلاقی اقدار پر نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی معاشرے میں موجود بہت سی اقدار بھی مسلم معاشرے کی اقدار سے مختلف ہیں۔ اسی لئے مغربی معاشی تجزیوں کا اطلاق مسلم معاشروں پر نہیں ہوتا مثلاً اسلامی تعلیمات میں سود حرام ہے جب کہ مغربی معاشیات کا پورا ڈھانچہ سود پر کھڑا ہے۔ سودی نظام مسلمانوں کے لئے ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے انہیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہو۔ مغربی معیشت میں خود غرضی کا عنصر نمایاں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مغربی معیشت خود غرضی پر مبنی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مسلمان قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں، محبت و اخوت اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جزو ہے۔ جس کی مغربی معاشیات میں کوئی جگہ نہیں یہاں پر
ایک صارف کا پورا زور زیادہ سے زیادہ تسکین کے حصول اور آجر کے لئے منافع کے حصول پر ہے اور اس کو عقلیت پر سمجھا جاتا ہے اس لئے مسلمانوں کو ایک علیحدہ معاشی نظام کی ضرورت ہے۔ اسلام کی عقلیت پسندی مغربی عقلیت پسندی سے یکسر مختلف ہے کیونکہ اسلام کے مطابق ایک مسلمان کے نزدیک آخرت کا تصور اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اس کی زندگی کا محور ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کا معاشی تجزیہ مغربی معیشت دان سے بہت حد تک مختلف ہے۔ الغرض یہ جزیات اسلامی اصولوں سے خالی ہوتے ہیں۔ اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطٔ حیات پیش کرتا ہے لہٰذا اس کے نزدیک زندگی کو ایک اکائی تصور کیا ہے اور اس کے تمام نظام چاہے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تعلیمی سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور اس اکائی کی کڑیاں ہیں اس لئے کسی بھی معاشی مسئلے کا حل نکالتے وقت پوری اسلامی پالیسی کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے تغیرات ہیں جو مغربی معیشت میں بیرونی سمجھے جاتے ہیں مگر اسلامی دائرہ کار میں اندرونی سمجھے جاتے ہیں جیسے اخروی ثواب اورا نعام اسلامی پالیسی میں اندرونی متغیر اختیار کر لیتا ہے۔
آج دنیا کے بڑے معروف ماہرینِ اقتصادیات اور نامور معیشت دان اپنے اور دوسرے ممالک کے متوازن بجٹ تجویز کرنے، قرضوں اور بھاری واجبات کے کوہِ گراں کو کم کرنے پر اپنی پوری قابلیت کہیں دیانتداری سے اور کہیں سیاسی مصلحتوں کے تابع رہ کر جانبداری سے صرف کر رہے ہیں۔ پھر بھی نہ تجارتی توازن درست ہو رہا ہے نہ بیمار صنعتی یونٹ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مدینہ کی اتنی وسیع و عریض اسلامی فلاحی ریاست میں اتنی آسودگی اور نان و نفقہ کی خوشحالی تھی کہ صاحبِ نصاب کو ڈھونڈنے سے بھی مستحق زکواۃ نہیں ملتا تھا۔ سود خور یہود و نصاریٰ سے معاشرہ مکمل طور پر پاک صاف تھا۔ بیت المال فلاحی ریاست کی امانت تھا جہاں آمد و خرچ کا صحیح حساب موجود تھا۔ مدینہ منورہ کی مثالی اسلامی ریاست نے ایک فلاحی، منصفانہ اور بنیادی حقوق کے یکساں محافظ معاشرے کا تجربہ پوری دنیا کو کامیاب کر کے دکھایا۔ دینِ اسلام میں زکوٰۃ کی فرضیت اہم مقصد مال و دولت سب میں پھیلے، سب میں بٹے اور کسی ایک گروہ کے پاس اکٹھا نہ ہو ۔
آج امتِ مسلمہ جن مسائل میں گھری ہوئی ہے اسلامی تعلیمات پر چل کر ہی ان مسائل سے نکل سکتی ہے۔ ہم غیروں کی اندھا دھند تقلید کر رہے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں حتیٰ کہ تعلیم تک میں موجود چیزیں ہماری نہیں دوسروں کی ہیں، ہم اپنا ماضی اور مضبوط روایات کو بھول گئے ہیں، دوسروں کی تقلید میں ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کن چیزوں کی تقلید ہمارے لئے فائدہ مند ہے اور کس کی تقلید نقصان دہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئے نبی کریمﷺ کی سیرت کی طرف دیکھیں جنہیں اللہ نے ہماری رہنمائی کے لئے بھیجا ہے۔ نبی کریمﷺ کی زندگی پر نظرڈالیں تو ہمیں یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ اعلانِ نبوت سے قبل آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک تاجر کی حیثیت سے کیا۔ جب آپﷺ حضرت خدیجہ کا سامان لے کر شام کے سفر پر گئے تو اس سفر میں حضرت خدیجہ کا ایک قریبی غلام بھی آپ کے ساتھ تھا۔ جس نے سرکار کے طرزِ عمل اور طرزِ تجارت کا بخوبی جائزہ لیا اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہ کو منافع ہوا۔ آپ نے سامانِ تجارت کو تجارت کے تمام تر اخلاقی تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فروخت کے لئے پیش کیا۔ آپ نے ہر چیز میرٹ پر مارکیٹ میں فروخت کی ۔رسول کریمﷺ نے تجارت اور احتساب کو بہت اہمیت دی لیکن ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہمارا محاسبہ ہو گا۔ آپﷺ کی عملی سیرت کا مطالعہ کر کے اس کی جھلک اپنی زندگی میں لانی چاہئے تو پھر ہمیں صرف اور صرف فائدے حاصل ہوں گے۔ آج ہم اس لئے پستی کی طرف جا رہے ہیں کہ کیونکہ ہم نے نبی کریمﷺ کی سنت کو بھلا دیا اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے آپ کے دیئے ہوئے اصولوں کو اپنایا اور وہ کامیاب وہوگئے۔ آج ہمیں اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔