اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پولیس افسران کی آؤٹ آف پروموشن سے متعلق مقدمے کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث صاحب آپ کو ٹرائل پر توجہ دینی چاہیے جس پر خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ ہم نے کبھی ٹرائل کورٹ سے التوا نہیں لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کا ایشو ہمارے پاس نہیں ہے میں نے عمومی بات کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پوچھنے پر بتا رہے ہیں کہ احتساب عدالت سے کبھی تاریخ نہیں لی۔ اپنے رجسٹرار آفس سے کہہ دیتے ہیں جب تک ٹرائل ہے آپ کے مقدمات نہ لگائیں صرف پیر کو آپ جاتے ہیں 2 دن کیس چلتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہاں (احتساب عدالت) فیصلہ کروائیں اپنا بوجھ ختم کروائیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ احتساب عدالت خود سے تاریخ ڈال دیتی ہے میں نے کبھی احتساب عدالت سے تاریخ نہیں لی ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کی آؤٹ آف ٹرن ترقی پر سندھ میں ہم نے پابندی لگائی پنجاب میں کیسے اجازت دے دیں۔ پنجاب میں ایسے لوگوں نے بھی ترقیاں کیں جنہوں نے ماورائے عدالت قتل کیے۔ پنجاب پولیس لوگوں کو قتل کر کے ترقیاں حاصل کرنے میں بدنام ہے۔ عدالتوں کے ذریعے دی گئی آوٹ آف ٹرن پروموشنز کو ہی واپس لے لیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کام کرنے والوں کو تمغے اور پیسے دلوا دیں گے۔ بتائیں عدالتوں سے آوٹ آف ٹرن پروموشن لینے والوں کو کیسے چھوڑیں ہم نے انصاف کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی ہوا ہے کہ بندہ مار دو آوٹ آف ٹرن پروموشن لے لو کیونکہ بندے مارنے والوں کو پنجاب نے ترقیاں دیں۔
چیف جسٹس نے کہا عدالتی فیصلے سے چاہے کتنے بھی لوگ متاثر ہوں اصول طے کرنے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے پولیس آوٹ آف ٹرن پروموشن کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں