شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی براہ راست سماعت کا احوال

شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی براہ راست سماعت کا احوال
سورس: Youtube

اسلام آباد: سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں براہ راست  سماعت ہوئی۔  سپریم کورٹ نے لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید و دیگر کونوٹس بھیج کر ان سے الزامات کا جواب طلب کر لیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت لارجر بینچ میں شامل ہیں۔ 

آج کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس فائز عیسی نے درخواست گزار شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی جنرل وزیر اعظم بننا چارہا تھا یا وہ کسی کے لیے سہولت کاری کر رہے تھے، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کے الزامات سے ایک شخص کو نقصان پہنچایا گیا اور کسی کو فائدہ دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ درخواست گزار عدالت میں آئین کے آرٹیکل184 تین کے تحت آئے ہوئے ہیں تو پھر ہمارا اختیار شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو پھر آپ نے آئین کے خلاف جنگ شروع کردی ہے اور اس جال میں وہ لوگ پھنس جائیں گے جنہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا یا سہولت کاری کی۔

جسٹس قاضی فائز  کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ اس کو چھیڑ لیں یا اس کو تنگ کردیں کیونکہ سارے سینیئر لوگ ہیں اور اگر ایسا ہے تو پھر یہ آئین جمہوریت اور عدلیہ پر حملہ ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ جن لوگوں نے درخواست گزار کے خلاف کارروائی میں سہولت کاری کی تو ان کے پسندیدہ افراد کون تھے تو درخواست گزار کے وکیل نے پہلے تو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور پھر کہا کہ ان سہولت کاروں کا پسندیدہ افراد کا سنہ 2018 کے انتخابات میں جیپ کا نشان دیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ پھر ان افراد کے نام کیوں سامنے نہیں آئے اور پہلے ان کے بارے میں کیوں نہیں کہا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں ہم کسی بھی فریق کے لیے سسٹم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، وہ سوچ لیں کہ اس درخواست کے نتائج بھی ہوں گے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہمارے کندھے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ’نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟ سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ ’پاکستان جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا، کیا پاکستان، سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ سب ہوا؟جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ پاکستان ہم نے انکوائری کی درخواست کی تا کہ حقائق سامنے آئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں نہ بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں۔ آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مسئلہ یہ کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے؟ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ یہ الزام فیض حمید پر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ابھی تک آپ نے جنرل فیض حمید کا نام ہی ’اسٹیبلش‘ کیا ہے۔ اب جنرل باجوہ کا اس میں کیا کردار بنتا ہے، انھیں ہم کیوں نوٹس جاری کریں؟چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل باجوہ کا آپ نے فریقین میں پہلا نام لکھا مگر جنرل باجوہ سے تو الزامات کی کوئی کڑی جُڑ ہی نہیں رہی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل فیض کی حد تک تو ٹھیک ہے، جنرل باجوہ کا کہاں ڈائریکٹ نام آتا ہے؟ بریگیڈیئر عرفان رامے کا بھی غیر متعلقہ ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے  لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کیساتھ ساتھ  بریگیڈیئرریٹائرڈ عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کاسی، سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف  کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔

گزشتہ سماعت کا احوال

چیف جسٹس نے پہلا سوال شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان سے پوچھا کہ آخری دفعہ یہ کیس کب سنا گیا اور کن ججز نے سنا؟ چیف جسٹس نے کہا وہ ایک بار پھر آغاز سے اس مقدمے کو سننا چاہیں گے، جس پر حامد خان نے اس مقدمے کی تاریخ پڑھ کر بتانا شروع کر دی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے چند خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ  موبائل ہاتھ میں اٹھا کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا، صحافی کا بڑا رتبہ ہے ۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا، پہلے اس بینچ میں کون کون سے ججز تھے۔


چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے، باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، میں نے بنچ سے کسی کو نہیں ہٹایا، بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے۔

 چیف جسٹس نے حامد خان سے یہ بھی پوچھا کہ انھیں موجودہ بینچ کے کسی جج پر اعتراض تو نہیں ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ انھیں کسی جج پر اعتراض نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب سپریم کورٹ میں جمہوریت آ چکی ہے اور بینچز قانون کے مطابق جمہوری انداز میں بنتے ہیں۔ ’اب سپریم کورٹ میں جمہوریت آ چکی ہے۔‘ حامد خان نے اس پر کہا کہ یہ اچھا ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مگر اس وقت ملک میں جمہوریت مشکل میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم اس کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے شوکت صدیقی کی راولپنڈی بار کے سامنے کی جانے والی تقریر کا سکرپٹ پڑھ کر سنایا جس میں آئی ایس آئی پر کچھ الزامات عائد کیے گئے تھے۔ شوکت صدیقی کی طرف سے شوکاز نوٹس میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کا بھی نام لیا گیا تھا کہ انھوں نے انھیں من پسند فیصلہ کرنے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی نے جن افسران پر الزام لگائے ہیں انہیں بغیر سنے ان کے خلاف کارروائی آگے نہیں بڑھا سکتے۔ آپ ان افراد کو پارٹی بنائیں یا نہ بنائیں مگر بغیر کسی کو نوٹس دیے ہم کارروائی نہیں کرسکتے۔


چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ انہیں پارٹی نہیں بنانا چاہتے ہیں تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کا بظاہر درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’فیشن چل گیا ہے، اداروں کو بدنام کرنے کا۔ حامد خان نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ ان افراد کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب وہ وقت گزر گیا ہے اور اب بتائیں کہ اب پارٹی بناتے ہیں یا نہیں؟ حامد خان نے کہا جیسے آپ کہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کا کیس نہیں لڑ سکتے یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ اگر وہ افراد سامنے آنا چاہتے تو خوش آمدید کہیں گے۔

 
 
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ججز پر اعتراض ہو سکتا ہے مگر ساری عدلیہ کو برا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس طرح تو پھر سارے ججز لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم شخصیات کو برا بھلا نہیں کہتے، ادارے کو برا بھلا کہہ جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جرمنی میں فاشزم کے زمانے میں بھی سیکرٹ پولیس ہوتی تھی۔ ادارے فاشزم میں بھی کام کرتے ہیں اور عام حالات میں بھی۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ یا آپ ایسے تمام افراد کے نام اپنی درخواستوں اور جوابات سے نکال دیں اور کیس کو صرف قانونی نکات پر لڑیں یا پھر سب کو پارٹی بنائیں۔ شوکت صدیقی کے دیگر مقدمات میں وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بھی فوج کے افسران کو پارٹی بنانے کی درخواست کی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے کارروائی آج تک ملتوی کر دی تھی۔ 

مصنف کے بارے میں