کسی اہم قومی مسئلے پر علمی بحث مباحثہ یا زبانی جمع خرچ آسان سے مگر عملاً اس کا سدباب کرنا اس کیلئے جدوجہد کرنا اور اس کے ایک ایک پہلو کو سائینٹفک انداز میں سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ سمندر کی تہہ میں اترے بغیر اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا۔
2009ء میں امریکا کے 44 ویں صدر باراک اوباما ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدر بنے تو وہ پہلے سیاہ فام امریکی تھے جو امریکہ کے سب سے بڑے عہدے کیلئے چنے گئے۔ یہ ایک ضمنی حوالہ ہے کہ اس سے پہلے امریکہ میں ڈرگ اور نشہ کو صرف سیاہ فام امریکیوں کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا لیکن جب ان کے دور میں پہلی بار نشہ آور مواد کے استعمال سے ہونے والی اموات کی سالانہ شرح 73000 تک پہنچی تو اس نے پورے امریکہ کو ہلا کے رکھ دیا۔ باراک اوباما کے دور میں ڈرگ نیشنل ایمر جنسی نافذ کی گئی تاکہ نشے سے ہونے والی اتنی بڑی تعداد کو مرنے سے بچایا جا سکے۔ اس موقع پر ڈرگ اور نشے کے خلاف پورے امریکہ میں ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر جو مہم چلائی گئی اس میں ایک پاکستانی ڈاکٹر مقصود احمد بھی تھے جو امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ جب انہوں نے اس فیلڈ میں مریضوں کی بحالی اور اس سے منسلک تمام معاملات پر غور کرنا
شروع کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ یہ معاملہ جتنا میڈیا میں آتا ہے حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ انہوں نے امریکی کانگریس ممبران سے ملاقاتوں اور اعلیٰ سطح پر اصلاح احوال کرنے والوں سے ملنے اور زمینی حقائق کے باریک بینی سے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسانیت کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کیلئے انہیں اس پر کام کرنا چاہیے جس کے کچھ ہم خیال دوستوں کے مشورے اور حمایت کی یقین دہانی کے بعد ڈاکٹر مقصود احمد نے نارتھ کیرولینا میں Hometown community Foundation یعنی HCF کے نام سے ایک سماجی خدمت کی انجمن رجسٹرڈ کرائی جس کا مقصد یہ تھا کہ امر یکی معاشرے میں ڈرگ سے متعلق آگاہی پیدا کرنے اور اس لت میں مبتلا مریضوں کی بحالی کا اہتمام کیا جائے۔ گزشتہ ایک دہائی کے عرصے میں HCF نے اس پر کافی کام کیا ہے اور اس کے کئی چیپٹر اس مقصد کیلئے کام کر رہے ہیں تاکہ امریکی معاشرے کو ڈرگ کی تباہی کے اثرات سے بچایا جائے یاد رہے کہ اس وقت بھی امریکہ میں تقریباً ایک لاکھ افراد سالانہ ڈرگ اوور ڈوز اور نشہ کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں اور یہ تعداد بجائے کم ہونے کے بڑھتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر مقصود احمد 2018ء میں پاکستان آئے تو
بقول ان کے اس وقت تک انہیں قطعی اندازہ نہیں تھا کہ ڈرگ اور نشہ کے معاملے میں پاکستانی یوتھ کی حالت امریکہ سے کہیں زیادہ خراب ہے چنانچہ انہوں نے اپنی توانائیوں کو پاکستان میں ڈرگ کے خاتمے پر مرکوز کر دیا اور اپنے مشن کو امریکہ سے بڑھا کر پاکستان تک وسیع کر دیا گویا یہ ان کی بصیرت اور جذبہ حب الوطنی کا اظہار تھا کہ ہم اس معاشرے کی حالت سدھارنے کیلئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر اپنا حق ادا کریں۔ اس طرح انہوں نے ڈرگز اور نشے کے خلاف جو جہاد نارتھ کیرولینا میں شروع کیا تھا اسے پاکستان تک توسیع دیدی ہے اور 2018 سے ہوم ٹاؤن کمیونٹی فاؤنڈیشن کو پاکستان میں بھی فعال کر دیاہے۔ یہ تنظیم امریکہ میں باقاعدہ طور پر ایک غیر منافع بخش انجمن کے طور پر رجسٹرڈ ہے جبکہ پاکستان میں اس کی رجسٹریشن زیر عمل ہے۔
کچھ عرصہ قبل فیصل آباد میں ہوم ٹاؤن کمیونٹی کے فیصل آباد چیپٹر کی سر گرمیوں کو قریب سے دیکھنے
کا اتفاق ہوا جس میں ہمارے محترم دوست سلیم بلندیا اور محمد اطہر صاحب نے ضلع کے سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ڈرگ اور نشے کے اور مضر اثرات سے آگاہی کی ایک جامع اور موثر مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان دوستوں کے توسط سے ہمیں ڈاکٹر مقصود احمد صاحب اور ان کے مشن تک رسائی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر مقصود احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں یوتھ ہماری مجموعی آبادی کا 65 فیصد سے اور ہمیں جنگی بنیادوں پر پاکستان میں کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اعدادو شمار کے مطابق اس وقت ملک میں 7.6 ملین یعنی 76 لاکھ افراد نشہ کرتے ہیں جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد عورتیں ہیں لیکن منشیات کے متاثرین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اگر ایک بندہ نشہ کرتا ہے اور اس کے گھر کے کئی افراد ہیں تو یہ سارے متاثر ہوتے ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ ڈاکٹر مقصود احمد صاحب نے ہوم ٹاؤن کمیونٹی کے امریکی ماڈل کو پاکستان میں Replicate کرنے کا پروگرام مرتب کیا ہے اس سلسلے میں انہوں نے اعلیٰ سطح پر قانون سازی کیلئے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے اینٹی نار کو ٹک فورس سینیٹر اعجاز چودھری صاحب کے ساتھ شرکت عمل سے ایک حکمت عملی بنائی ہے اور ہر سطح پر ڈرگ اور نشے کے بارے میں آگاہی اور اس لعنت میں مبتلا مریضوں کی معاشرے میں بحالی کیلئے مستقل بنیادوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر مقصود صاحب آج کل پاکستان میں ہیں اور مکتبہ فکر کے افراد سے رابطے بڑھا رہے ہیں کیونکہ یہ بہت بڑا کام ہے جو concencus کے بغیر ممکن نہیں۔ اس میں ڈاکٹروں، قانون سازوں، میڈیا، اساتذہ، علمائے کرام، این جی اوز اور ہر طبقے کے افراد کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان میں ویسے تو ہزاروں این جی اوز کام کرتی ہیں مگر ڈرگ کے شعبے میں NGO,s کام کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ اس کی دوسری وجہ شاید یہ ہے کہ ڈرگ مافیا بہت طاقتور ہے اور وہ اپنے مفادات کے خلاف اس طرح کی کسی مہم جوئی کو پسند نہیں کرتا اس لیے سماجی تنظیمیں اس حساس اور خطرناک شعبے میں داخل ہونے سے گریز کرتی ہیں۔
ڈاکٹر مقصود احمد کے حالیہ دورے کا بڑا مقصد اگلے ہفتے راولپنڈی میں "Mental Health And Addication" کے موضوع پر ایک قومی کانفرنس کا انعقاد ہے جو راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی میں ہورہی ہے اس میں پالیسی میکرز اور دیگر سٹیک ہولڈرز شامل ہورہے ہیں۔ اس کا نفرنس میں چوٹی کے ڈاکٹر اور ماہرین خطاب کریں گے۔ علاوہ ازیں فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے جائیں گے۔ HCF کے سینئر ارکان کی اگلے ہفتے گورنر پنجاب کے ساتھ ایک نشست متوقع ہے۔
آرگنا ئزیشن کے مذہبی امور کے آرگنائزر حکیم میاں عبدالرحمن عثمانی صاحب کے مطابق HCF کے پلیٹ فارم سے معاشرے کے ہر مکتبہ فکر کے افراد کو تربیت فراہم کی جائے گی کہ وہ ڈرگ کے خلاف اپنا کردار ادا کریں جبکہ میڈیا انتظامیہ اور سیاسی قیادت سے تعاون کی امیدہے۔
ڈاکٹر مقصود احمد صاحب نے اپنے انسانیت کی خدمت اور صحتمند معاشرے کے قیام کیلئے شروع کئے گئے اس مشن کو ایک کاروان کی شکل دیدی ہے جو مستقبل میں پاکستانی یوتھ کیلئے نئی زندگی کا ایک پیغام ثابت ہو گا۔ ڈاکٹر مقصود احمد کا آبائی علاقہ گوجرانوالہ ہے۔ پاکستان سے امریکہ روانگی ان کی پیشہ ورانہ زندگی کی بہتری کیلئے تھی البتہ37 سال امریکہ میں قیام کے باوجود وہ اپنے لوگوں کو نہیں بھولے اور انہوں نے وطن عزیز کے یوتھ کی طرز زندگی میں بہتری کا جو خواب دیکھا ہے اس پر انہیں کسی ستائش کی تمنا ہے اور نہ صلے کی پروا کیونکہ یہ بلا مبالغہ محض انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کیلئے ہے۔ اس طرح کے جذبے کبھی نا کام نہیں ہوتے۔ بقول فیض احمد فیض
آئیے عرض گزاریں کہ نگار ہستی
زہر امروز میں شیرینیئ فردا بھر دے
وہ جنہیں تاب گرا نباریئ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے