سردار تنویر الیاس آزاد کشمیر کے وزیراعظم ہیں۔ شہبازشریف کی منگلا منصوبے پر آمد کے حوالے سے انہوں نے جو قضیہ کھڑا کیا ہے اس پر ان کے مخالفین نے بھی ان کی تحسین کی ہے۔ ان کی ذات کے حوالے سے بہت سی باتیں کی جاتی ہیں اور وہ خود بھی عوام سے میل ملاقات میں ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ انہیں کچھ ہوش نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم ہیں۔ کیوں ہیں، کیسے بنے اور کس نے بنایا ہے یہ سوال الگ ہے اور اسے محض عمران خان کی چوائس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آزاد کشمیر اپنی مرضی کا چیف سیکرٹری اور آئی جی نہیں لگا سکتا وزیراعظم اپنی مرضی سے کیسے لگائے گا۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم کی تعیناتی محض کوئی سیاسی جماعت نہیں کرتی بلکہ اور بھی بہت سی قوتیں ہیں جو فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ نظام سقہ کو جب ایک دن کے لیے اقتدار ملا تھا تو اس نے بھی اپنے اختیار کو استعمال کیا تھا لیکن افسوس سردار تنویر الیاس وزیراعظم آزاد کشمیر ہوتے ہوئے اپنے اختیار کو استعمال نہ کر سکے۔ آزاد کشمیر میں امن و امان کی ذمہ داری ان کی ہے اور وزیراعظم پاکستان اگر میرپور آئے تھے تو ان کی سکیورٹی کے انتظامات کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ ایک وفاقی محکمہ کس طرح وہاں پر اپنی من مانی کر سکتا تھا۔ آزادکشمیر میں ہونے والی کوئی بھی تقریب آپ کی اجازت سے مشروط ہونی چاہیے تھی۔ کیا واپڈا یا کوئی دوسرا ادارہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہے کہ انہیں اپنی حدود کے اندر تمام تر اختیارات حاصل ہیں اور وہاں کی حکومت کے ذمہ داران اس علاقے میں ان کی مرضی اور منشا سے داخل ہو سکتے ہیں۔
مجھے کشمیر سے تعلق رکھنے والے پنجاب یونیورسٹی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اصغر اقبال یاد آ گئے۔ وہ ایک ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ تھے آج کل وارڈن ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک طالب علم تنظیم نے ایک سیاسی رہنما کو ہاسٹل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں مدعو کیا۔ پروفیسر صاحب کے پاس کوئی فورس نہیں تھی کہ وہ انہیں اس تقریب میں شرکت سے روکتے مگر وہ خود گیٹ پر کھڑے ہو گئے اور طالب علموں سے کہا کہ وہ اپنی تقریب جاری رکھیں لیکن انہوں نے اس رہنما کو گیٹ پر روک لیا اور بصد احترام ان سے کہا کہ وہ اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکتے۔ بعد ازاں اس پر خاصا ہنگامہ بھی ہوا مگر انہوں نے اپنے اختیار کو استعمال کیا۔ سردار تنویر الیاس بھی احتجاج کرنے کے بجائے اپنے اختیار کو استعمال کرتے تو آج ان کی جگہ وفاقی حکومت احتجاج کر رہی ہوتی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر کو ہم ایک مفتوحہ علاقہ سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس سارے عمل میں آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی شامل کر لیا جاتا اور ان کی مرضی اور منشا سے سب کچھ ہوتا تو جگ ہنسائی کا سبب نہ بنتا۔ بھولے کشمیریوں نے اپنے ہنستے بستے گھر اور اپنے قبرستان پانی میں صرف اس لیے غرق کر لیے کہ پاکستانی قوم کو روشنی مل سکے اور وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کر کے اناج حاصل کر سکیں۔ بھارت نے راوی، بیاس اور ستلج کا پانی روک کر پاکستان کے ایک بڑے حصے کو پانی سے محروم کر دیا اور آج وہاں کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ کشمیر کے لوگوں نے تو ہر حال میں پاکستان سے وفا کی ہے مگر اسلام آباد میں بیٹھے حکمران اس کی آزاد حیثیت کو ختم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ انہیں آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ان کے ساتھ ہونے والے معاہدات کو اپنی مرضی سے چلایا جاتا ہے۔ کیا پاکستان نے گلگت بلتستان جسے پہلے شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا اس کی حیثیت کو تبدیل کرنے سے پہلے آزادکشمیر کے عوام کو اعتماد میں لیا تھا۔ کیا یہ غلط ہے کہ یہ علاقہ قانونی اعتبار سے آزادکشمیر کا حصہ نہیں اور کیا اس کا انتظام کچھ عرصہ کے لیے پاکستان کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔ کیا پاکستان کو اس علاقے کو واپس آزادکشمیر کے سپرد نہیں کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ وہاں پر اصلاحات کا عمل شروع
کرتی اور انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جاتا۔ کیا آج بھی ریاست اس علاقے کے انتظامات کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوئی۔ سوالات بہت سے ہیں اور مجھے علم ہے کہ ان کا جواب محض تسلیاں اور دلاسے ہیں اور اگر آپ اس سے راضی نہیں ہوتے تو پھر دھمکیاں ہیں۔ ریاست کو چلانے والی بیوروکریسی کا انتخاب بھی حکومت پاکستان کرتی ہے۔ کیا کشمیری اس قابل نہیں ہیں کہ اپنا چیف سیکرٹری اور آئی جی تعینات کر سکیں۔ کشمیری پاکستان اور بھارت میں اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں مگر اپنی ریاست کو چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ مقامی سطح تک فیصلہ سازی کے عمل کو آزاد کشمیر نے شروع کیا۔طویل عرصہ کے بعد آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں اور اس کا سارا کریڈٹ سردار تنویر الیاس کو دینا چاہیے۔ وہ چاہتے تو دوسری حکومتوں کی طرح مختلف حیلے بہانے کر کے انہیں ٹال سکتے تھے مگر انہوں نے رسک لیا۔ ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو سب جماعتوں نے تسلیم بھی کیا ہے اور انہیں صاف شفاف انتخابات قرار دیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کئی مقامی حکومتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی بنیں گی اور کسی جگہ تحریک انصاف کے لوگ مقامی حکومتوں کو چلائیں گے۔
یہ جھگڑا کیا تھا اور سردار تنویر الیاس کیوں احتجاج کر رہے تھے۔ معاملہ صرف ان کو اس تقریب میں شرکت سے روکنے کا نہیں تھا۔ پاکستان میں بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ منگلا اپ ریزنگ منصوبے کے لیے واپڈا نے آزادکشمیر کی حکومت سے کچھ وعدے کیے تھے لیکن انہیں پورا نہیں کیا گیا۔ ری سیٹلمنٹ پیکیج کے تحت منگلا ڈیم میر پور کے متاثرین کی آباد کاری کے لئے ایک نیو سٹی اور چار ٹاؤن تعمیر ہونا تھے۔لیکن واپڈا نے ان کاموں کی تکمیل نہیں کی اور عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔ منگلا ڈیم ریزنگ کے متاثرین کو معاوضہ جات کی مکمل ادائیگی تا حال نہیں کی گئی جس کی وجہ سے متاثرین میں تشویش پائی جاتی ہے۔رٹھوعہ ہریان برج تعمیراتی کام جون 2018میں مکمل ہونا تھا تاحال پل کا ایک حصہ بھی تیار نہیں جس کے باعث اسلام گڑھ اور میر پور کے درمیان عوام کو دو گھنٹے اضافی سفر کرنا پڑتا ہے۔نیلم جہلم کا منصوبہ مکمل ہو چکا لیکن تاحال حکومت پاکستان نے حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ ٹرائی پاڈ معاہدہ نہیں کیا۔حکومت پاکستان منگلا ڈیم ریزنگ پروجیکٹ کے تحت ڈیم سے میرپور کے رہائشی افراد کو پینے اور آبپاشی کیلئے 614 کیوسک پانی دیتا ہے۔اس معاہدے پر تاحال عملدرآمد نہ ہو سکا۔ واپڈا نے منگلا ڈیم اپریزنگ پروجیکٹ کے تحت میر پور کیلئے پینے کا پانی سیوریج واٹر
ٹریٹمنٹ پلانٹ،واٹر باڈیز وغیرہ کے منصوبہ جات مکمل کرنا تھے جو تاحال مکمل نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے میرپور کو پانی کی کمی درپیش ہے۔ حکومت پاکستان کے ساتھ ہونے والے فنانشل ایگریمنٹ 2018 کے تحت آزاد کشمیر کا رواں مالی سال کا ویریئبل گرانٹ کا حصہ 74.320 بلین روپے بنتا ہے وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کو شیئر کے خلاف صرف 59.5 بلین روپے دیئے ہیں۔ اس غیر قانونی کٹ سے حکومت آزاد کشمیر کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ آزادکشمیر کے سالانہ ترقیاتی پروگرام 2022تا 2023 کے لیے وفاقی حکومت نے 28 ارب روپے کی منظوری دی تھی جبکہ وزارت خزانہ 26 ارب روپے کی ایلوکیشن کی بنیاد پر آزاد کشمیر کو فنڈز واگزار کر رہی ہے۔ پہلی دو سہ ماہیوں میں 30 فیصد فنڈز واگزار کیے جانے تھے جبکہ صرف 20 فیصد فنڈز واگزار کیے گئے۔ فنڈز کی کمی اور متعین شرح سے فنڈز کی کمی اور متعین شرح سے فنڈز ریلیز نہ کیے جانے کے باعث آزاد کشمیر کا ترقیاتی پروگرام بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔کیا ان مسائل کو حل کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں اور کیا آزاد کشمیر کے وزیراعظم وہ کوئی بھی ہو کو ان مسائل کے حل کے لیے بات نہیں کرنا چاہیے۔ کیا وفاقی حکومت یہ بتانا پسند کرے گی کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اب تک کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ ان تمام مسائل کو محض اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمیں سردار تنویر الیاس کی شکل اچھی نہیں لگتی۔ آپ کو میڈیا تک رسائی حاصل ہے تو کیا آپ کو یہ لائسنس مل گیا ہے کہ آپ ان مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے یہ دھمکی دیں کہ ہم آپ کا داخلہ اسلام آباد میں بند کر دیں گے اور اس کے جواب میں اگر آزادکشمیر کی حکومت نے آپ کا داخلہ کشمیر میں بند کرنے کا اعلان کر دیا تو پھر کیا ہوگا، ذرا سوچئے۔