لی شیمن چین کی تاریخ میں بے حد شاندار، حیران کن اور عظیم بادشاہ ہو گزرا ہے جس کا تعلق Tang خاندان سے تھا۔ وہ اپنی بہت سی صلاحیتوںکے باعث مشہور تھا۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کو کھلے دل سے قبول کرتا۔ جب کبھی اس کے ماتحتوں کی تنقید اس پر بے حد بڑھ جاتی تو کبھی کبھار وہ برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا مگر آخرکار وہ چینی تاریخ کا ایک سمجھدار اور بے حد کھلے ذہن کا بادشاہ تھا۔ اس لیے وہ ہرحال میں ملک کے مفاد کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا اور جونہی اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا تو اپنی غلطی کا احساس کرلیتا، سب لوگوں کے سامنے اس کا اعتراف کرتا اور معاملات درست کرلیتا۔ بادشاہ لی شیمن کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ وہ اکثر جنگلوں میں شکار کھیلنے کے لیے اپنے ساتھ بہت سے لوگ لے جایا کرتا۔ کئی مرتبہ اس کے ماتحتوں نے مختلف انداز سے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ وقت ضائع کرنے والے ایسے شوق کو چھوڑ دے مگر بادشاہ کا خیال تھا کہ وہ اور اس کے ساتھی شکار کے بہانے گھڑسواری، تیراندازی اور نیزہ بازی میں مہارت حاصل کرتے ہیں جوکہ میدانِ جنگ کی صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے اور اس سے ملک کا دفاع مضبوط ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے ماتحتوں کی طرف سے شکار سے منع کرنے والی بات کو ہمیشہ نظرانداز کردیتا۔ ایک دفعہ لی شیمن شکار کو جانے کے لیے تیار ہوا۔ جونہی اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی، دربار کے ایک سینئر افسر سن فوجیا نے اچانک آگے آکر گھوڑے کی لگام کو مضبوطی سے پکڑلیا اور بادشاہ کو محل کے باہر جانے سے زبردستی روکنے لگا۔ اس نے بادشاہ کو دوٹوک الفاظ میں خبردار کیا کہ اے جنت کے بیٹے! تم ہروقت مسلح افراد کے حفاظتی پہرے میں رہتے ہو اور جہاں تم جاتے ہو یہ سب تمہارے ساتھ جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے نہیں ہے بلکہ ملک اور اس کا بہتر انتظام چلانے کے لیے ہے مگر گھوڑوں پر سواری کرنا، عقابوں کو اڑانا اور شکار کے پیچھے
کتوں کو چھوڑنا، نوجوان امیر زادوں کا ایسا شوق ہے جس میں ذاتی لطف کے لیے بے پناہ وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ جب تم شہزادے تھے اس وقت تمہاری یہ حرکت ملکی معاملات پر اتنی اثر انداز نہیں ہوتی تھی مگر اب تم جنت کے بیٹے یعنی ہمارے بادشاہ ہو۔ اب تم یہ سب کچھ کیوں اور کیسے کرسکتے ہو؟ بادشاہ سلامت! کیا تم ہمارے عظیم فلاسفر لائوزی کا قول بھول گئے ہوکہ جنگلوں اور میدانوں میں شکار کے پیچھے مارے مارے پھرنے سے انسان پاگل اور بیوقوف ہوجاتا ہے۔ سینئر درباری نے مزید کہا کہ بادشاہ سلامت! شکار کے لیے آپ کا جنون ملک کے کسی مفاد میں نہیں ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو شکار کے کھیل سے باز رہنا چاہئے۔ بادشاہ لی شیمن نے سن فوجیا کی بات سنی ان سنی کی اور گھوڑے کو تیزی سے چلانے کی کوشش کرتے ہوئے سن فوجیا سے یوں مخاطب ہوا کہ یہ امن کا زمانہ ہے اور ہماری فوجیں جنگ کی تیاریوں میں بھی مصروف نہیں ہیں۔ توپھر میں شکار کے لیے کیوں نہ جائوں جس سے میں اپنے آپ کو جسمانی طور پر فٹ رکھنے کے ساتھ ساتھ جنگی مہارت بھی حاصل کرسکتا ہوں۔ میں نے اپنے ساتھ محافظوں کی زیادہ ٹیم نہیں لی تاکہ شہریوں کو پریشانی نہ ہو۔ تو پھر اس میں کیا غلط ہے؟ لہٰذا سن فوجیا اب تم کچھ مت کہو۔ بادشاہ کے جواب کے باوجود سن فوجیا نے گھوڑے کی لگام نہ چھوڑی اور بولا بادشاہ سلامت! اگر آپ میری مئودبانہ درخواست نہیں سنیں گے اور محل سے باہر جانے پر اصرار کریں گے تو پھر یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب آپ کا گھوڑا میری لاش پر سے گزرے گا۔ آپ میرے ٹکڑے کردیجئے لیکن میں آپ کے گھوڑے کی لگام نہیں چھوڑوں گا۔ عالیجاہ! جب تک میں زندہ ہوں آپ کو بادشاہوں کے شکار جیسے فضول شوق کے لیے محل سے باہر نہیں جانے دوں گا۔ بادشاہ لی شیمن، سن فوجیا کو بار بار حکم دیتا رہا کہ وہ گھوڑے کی لگام چھوڑ دے۔ سیکورٹی محافظوں نے بھی سن فوجیا کو پیچھے کرنے کی بہت کوشش کی مگر سن فوجیا نے کسی کی بھی پرواہ نہ کی اور غصے سے چلاتا رہا کہ بادشاہ سلامت! جب تک میں سانس لے رہا ہوں، میں بُت کی طرح چپ چاپ بیٹھا نہیں دیکھتا رہوں گا کہ آپ جنت کے بیٹے کی حیثیت سے غلط کام کرتے رہیں۔ بادشاہ آگ بگولہ ہوچکا تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح چلایا میں جنت کا بیٹا ہوں۔ اس زمین اور دس ہزار گھوڑوں کا مالک ہوں۔ کیا مجھے اتنا بھی اختیار نہیں کہ میں کچھ لمحوں سے لطف اندوز ہو سکوں؟ کیا مجھے ہروقت تمہاری پسند ناپسند کا خیال رکھنا پڑے گا؟ بادشاہ نے محافظوں کو حکم دیا کہ وہ سن فوجیا کو زبردستی وہاں سے ہٹائیں اور سب لوگوں کے سامنے اُس کا سرتن سے جدا کردیں۔ عین اُسی وقت بہت سے فوجیوں نے سن فوجیا کو آدبوچا اور اسے قتل گاہ کی طرف لے جانے لگے۔ موت کو سامنے دیکھ کر بھی سن فوجیا خوفزدہ نہیں ہوا بلکہ زور سے چلایا میں اُس زندگی سے موت کو ترجیح دیتا ہوں جس میں آپ کی غلطیوں کو خاموشی سے دیکھنا پڑے۔ سن فوجیا کی حب الوطنی، پختہ یقینی اور بے خوفی کو دیکھ کر بادشاہ مسکرایا اور بولا میں صرف تمہاری جرات کا امتحان لے رہا تھا۔ تم نے اپنی زندگی کی پرواہ کئے بغیر مجھ پر تنقید جاری رکھی اور یہ تنقید وطن سے محبت کے لیے تھی۔ میں تمہاری تجویز کو کیسے نظرانداز کرکے شکار پر جاسکتا ہوں۔ جب تک غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے تم جیسے افراد موجود رہیں گے، چین قائم دائم رہے گا۔ یہ سچا واقعہ ساتویں صدی عیسوی کا ہے اور اب اکیسویں صدی میں چین امن پسند اور خوشحال دنیا کی امیدوں کا مرکز ہے۔ چین سے ہم مالی، فوجی اور اخلاقی ہرطرح کی امداد وصول کرتے ہیں اور نت نئے معاہدے کرتے جارہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی عوام کو چین سے سبق سیکھنے کا ہرروز درس دیتے ہیں۔ پاکستان کے لوگ بھی چین کی ترقی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ کاش ہمارے حکمران چین سے حکمرانی کرنے کے طریقے سیکھنے کا کوئی معاہدہ کرلیں اور عوام اپنے اندر اُس سینئر درباری سن فوجیا جیسی جرات پیدا کرلیں تاکہ حکمرانوں کے غلط کاموں کے آگے بند باندھ سکیں۔