لاہور: لاپتہ صحافی مدثر نارو کی والدہ راحت محمود نے انکشاف کیا کہ کہ وزیراعظم عمران خان سے جب ملاقات ہوئی تو انھیں اس کیس کا علم نہیں تھا۔
گزشتہ دنوں عدالتی حکم پر وزیراعظم عمران خان نے لاپتہ صحافی مدثر نارو کے اہلخانہ سے ملاقات کی تھی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں وزیراعظم نے لاپتہ صحافی کے والد، والدہ اور ننھے بیٹے کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی۔ مدثر نارو کی والدہ راحت محمود کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سے جب ملاقات ہوئی تو انھیں اس کیس کا علم نہیں تھا تاہم انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ اس سلسلے میں جو کچھ ہو سکا وہ کریں گے اور پھر انہوں نے فون کرنا شروع کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بہت محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی مالی معاونت نہیں چاہیے، صرف اپنا بیٹا چاہیے۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ صحافی کے کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم ذمے داری لیں یا انہیں ذمے دار ٹھہرائیں جو اُن کے تابع ہیں، ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہوسکتی، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی ڈیپارٹمنٹ والا کسی کو جاکر اُٹھا لے، آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جاسکا، یہ تو سیدھا آرٹیکل 6 کا جرم ہے۔
لاپتہ صحافی مدثر نارو کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ ہمیں نہیں معلوم میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مِسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں، اٹارنی جنرل صاحب، آپ بتائیں عدالت کیا کرے؟
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا، مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ لاپتہ کردیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت کہہ سکتی ہے شہری جس دورمیں لاپتہ ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزرائے اعظم کےخلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کریں، ایک ہال آف شیم بنا کر تمام چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر وہاں لگا دیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر ہی کیوں لگائی جائیں؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی گئی، وزیراعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں، حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ کچھ وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن الله نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا کام نہیں کہ لوگوں کو ڈھونڈے، نہ ڈھونڈ سکتی ہے، ریاست کی خواہش ہی نہیں، جبری گمشدگیوں کا کمیشن بھی آئین کے خلاف بنا ہے، صرف فیملیز اس کمیشن میں جاتی ہیں جنہیں تاریخ دے دی جاتی ہے۔