ڈبلن:آئرلینڈ میں اسقاط حمل کو قانونی قرار دیدیا گیا ۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آئرلینڈ میں اس سال ہوئے ایک تاریخی ریفرنڈم کے بعد خواتین کو پہلی بار اسقاط حمل کی قانوناً اجازت ہوگی۔
وزیراعظم لیو وراڈکر نے اس بارے میں ایک قانون کی پارلیمانی منظوری کو ’آئرش خواتین کےلئے تاریخ لمحہ‘ قرار دیا ہے۔ڈبلن میں جمہوریہ آئرلینڈ کی قومی پارلیمان نے اس قانون کی منظوری جمعرات کو رات گئے دی ۔
نئے قانون کے مطابق حاملہ آئرش خواتین اب اپنے حمل کے پہلے 12 ہفتوں کے اندر اندر نہ صرف اپنی مرضی کے مطابق اسقاط حمل کروا سکیں گی بلکہ انہیں ان صورتوں میں بھی طبی طور پر ایسا کروانے کی اجازت ہوگی جبکہ کسی حاملہ خاتون کی جان کو خطرہ ہو یا اس کی صحت کو نقصان پہنچنے کے شدید خطرات موجود ہوں۔
اس قانون کے تحت کوئی خاتون اس وقت بھی اسقاط حمل کروا سکے گی ،جب یہ طے پاجائے کہ نوزائیدہ بچہ طبی طور پر معمول کا صحت مند بچہ نہیں ہو گا اور پیدائش سے پہلے ہی یا زیادہ سے زیادہ پیدائش کے بعد 28 دنوں کے اندر اندر اس کی موت واقع ہوسکتی ہو۔آئرلینڈ میں جو اکثریتی طور پر کیتھولک مسیحی آبادی والا ملک ہے اس سال مئی میں ایساتاریخی ریفرنڈم کرایا گیاتھا جس کا مقصد اسقاط حمل پر قانونی پابندی کا خاتمہ تھا۔
اس ریفرنڈم میں رائے دہندگان کی دو تہائی اکثریت نے اس امر کی حمایت کردی تھی کہ ایک ایسا نیا قانون بنایا جانا چاہیے،جس کے تحت حاملہ خواتین کو اسقاط حمل کی قانونی طور پر اجازت ہو۔
اس قانون سازی کے بعد آئرش وزیراعظم لیو وراڈکر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں نئے قانون کی منظور ی کو ’آئرش خواتین کے لئے ایک تاریخی لمحہ‘ قرار دیا۔
ملکی وزیراعظم کے علاوہ آئرش وزیر صحت سائمن ہیرس نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ”دو سو دنوں سے کچھ ہی زیادہ عرصہ قبل آئرش عوام نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ آرٹیکل آٹھ کو ختم کردیا جائے تاکہ آئرش خواتین کی صحت کا ان کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے ساتھ دھیان رکھا جاسکے۔“