اولین ترجیح صوبے میں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ،احتساب یا انتقام کا ایجنڈا لے کر نہیں  آئین اور قانون کا ایجنڈا لےکر عہدہ سنبھالوں گا: جسٹس (ر) مقبول باقر

 اولین ترجیح صوبے میں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ،احتساب یا انتقام کا ایجنڈا لے کر نہیں  آئین اور قانون کا ایجنڈا لےکر عہدہ سنبھالوں گا: جسٹس (ر) مقبول باقر

کراچی: نامزد نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کہاکہ  احتساب یا انتقام کا ایجنڈا لے کر نہیں آرہاہوں۔ انہوں نے نجی ٹی وی پر بات کرتے ہوئے کہاکہ  احتساب یا انتقام کا ایجنڈا لے کر نہیں بلکہ آئین اور قانون کا ایجنڈا لےکر عہدہ سنبھالوں گا۔

 میری اولین ترجیح صوبے میں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہوگا اور اس حوالے سے یقینی بناؤں گا کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کو جو معاونت درکار ہے وہ انہیں فراہم کی جائے، انتخابات کب ہوں گے اس حوالے سے تمام فیصلے نگران حکومت نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ عوامی دفتر سنبھالنا ایک بہت بڑی ذمہ داری اور عوام کی امانت ہے، لہٰذا کوشش یہی ہوگی کہ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دوں۔نامزد نگران وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں صرف احتساب کرنے آرہا ہوں، درست نہیں ہے، بہرحال نگران وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں یقینی بنائے کہ تمام کام سیاسی اور اخلاقی دیانتداری سے ہو، البتہ اگر کوئی بھی ذمہ داری دیانتداری سے انجام دینی ہے تو کرپشن کی اجازت نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ میں احتساب کا ایجنڈا لے کر نہیں آرہا بلکہ میری ذمہ داری ہی میرا ایجنڈا ہے۔قانون اور آئین کے مطابق صوبہ تمام احتساب کے اداروں کی معاونت کرے گا کیونکہ وہ ہمارا فرض ہے اور اس سے انکار کرنے سے ہماری ذمہ داری پوری نہیں ہوگی۔

نگران کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی تشکیل کے لیے مشاورت کی جائے گی البتہ میری پوری کوشش ہوگی کہ قابل، ذہین، دیانتدار، بالخصوص عوام کے دکھ درد کا احساس اور ان کے لیے کچھ کر گزرنے کی امنگ رکھنے والے لوگوں کو کابینہ میں شامل کرنے کی خواہش ہے تاکہ یوں ہم کچھ بہتری لا سکیں۔

ریویوز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے حوالے سے انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہر ادارے کو اپنے دائرے میں رہنا چاہیے، قانون ساز اداروں کو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے، مداخلت صرف اس صورت میں ہونی چاہیے جب کوئی کام خلافِ آئین ہو، اس فیصلے کے حوالے سے جتنا میں نے سنا ہے اس حوالے سے میں یہی کہوں گا کہ اس فیصلے کی کوئی ٹھوس بنیادیں نہیں تھیں لہٰذا حتمی رائے میں اس فیصلے کو دیکھ کر ہی کرپاؤں گا۔؎

مصنف کے بارے میں