اب تک عوام یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے حکمران ان کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں گے ان کے مستقبل کو روشن تر کر دیں گے پھر انہیں کوئی غم ہو گا نہ کوئی فکر ہو گی مگر پچھہتر برس کے بعد انہیں علم ہوا ہے کہ ان کا ایسا سوچنا درست نہیں کیونکہ ان کے حکمران اپنے مفادات کے لیے اقتدار میں آتے اور جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر ’’بادشاہ گروں‘‘ کا مفاد ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف والوں کی شرائط و خواہشات ہوتے ہیں لہٰذا آج جو حالت ان کی ہے اسی وجہ سے ہے مگر سوال یہ ہے کہ حکمران عوام عوام کی گردان کیوں الاپ رہے ہیں اس کا جواب یہ ہو گا کہ انہیں عوام کے نام پر ہی سیاست کرنی ہے۔ وہ ہوں گے تو حکومت ہو گی بھاری قرضے لیں گے اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے اور اپنی تجوریاں بھریں گے لہٰذا عوام کو چہرے بدل بدل کر بیوقوف بنانے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، عوام ہیں کہ مسلسل دھوکا کھا رہے ہیں شاید انہیں اب بھی آزمائے ہوؤں سے امید وفا ہے مگر یہ ان کی خام خیالی ہے ان تلوں میں تیل نہیں انہوں نے جو کرنا تھا وہ کر چکے ملک کا ستیا ناس کرنا تھا کر دیا اب محض اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے بھاری قرضے لے کر ملکی معیشت کی گاڑی کو رواں رکھنے میں مصروف نظر آتے ہیں مگر اس سے عوام کی حالت جو بگاڑ کی آخری حد کو چھو رہی ہے ٹھیک نہیں ہو رہی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بھی اہل اختیار و اقتدار کو کوئی تشویش نہیں۔ ہم آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں ایک دوسرے کو ہر نوع کا نقصان پہنچانے کے درپے ہیں یہاں تک کہ جان لینے کے منصوبے پر عمل پیرا بنائے جا رہے ہیں۔ یہ تمہیں کیا ہو گیا۔ کیا اس زندگی کے لیے جو کسی بھی وقت تمہارا ساتھ چھوڑ سکتی ہے۔ اپنی اولادوں کے لیے جنہیں اپنی زندگی جینا ہے ہاں ان کے مستقبل کو روشن بنانا تمہارا ہی نہیں سب پر لازم ہے۔
مگر اس میں کسی کو بھی کسی کی حق سلبی نہیں کرنا چاہیے۔ افسوس اس طرف کوئی دیکھتا تک نہیں چھینا جھپٹی ہو رہی ہے بڑے دھڑلے سے کمزوروں محکوموں اور بے بسوں کے حصے کو لوٹا جا رہا ہے۔ اس پر کسی کو شرمندگی تک نہیں۔ اب تو دیکھنے کو یہ بھی مل رہا ہے کہ ایسے ایسے طعنے دیے جا رہے ہیں جو نہیں دینے چاہئیں۔ موجودہ شعوری دور میں بھی یہ ہمارے سیاستدان کوئی سبق نہیں حاصل کر سکے ان کو ماضی میں جن الم و مصائب کا سامنا رہا ہے، ان کو بھی محسوس نہیں کر رہے اور نہیں سمجھ رہے کہ ان کے ساتھ یہ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے۔ عرض ہے کہ وہ ایک میز پر بیٹھیں عوام کے دکھوں کو سمجھیں کہ پچھہتر برس میں بھی وطن عزیز میں خوشحالی نہیں آ سکی نظام مساوات قائم نہیں ہو سکا۔ غربت آکاس بیل کی مانند پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ غریبوں کی بستیاں جدید دور کی ہر سہولت سے محروم ہیں۔ انہیں امیروں کی طرح کی کوئی آسائش حاصل نہیں مگر پھر بھی وہ امیروں کے نمائندوں کو اپنا نمائندہ تصور کرتے ہیں ان کے لیے سڑکوں پر آ کر نعرے لگاتے ہیں یہاں تک کہ وہ جیلوں اور حوالاتوں میں بھی جاتے ہیں مگر یہ بے حس حکمران ان کے کسی دکھ کو اپنا دکھ نہیں سمجھتے وہ انہیں اس پر بیوقوف تصور کرتے ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اپنے وسیع و عریض محلوں میں بیٹھ کر مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں مزید تکالیف پہنچانے کے لیے منصوبے بناتے ہیں۔ لہٰذا جب تک عوام ان سے فاصلے پر کھڑے نہیں ہوتے انہیں اپنے غم و غصے کا احساس نہیں دلاتے تب تک یہ یونہی ان کو چہرے تبدیل کر کے بیوقوف بناتے رہیں گے۔ اپنے محلات اور جائیدادیں باہر کے ملکوں میں بناتے رہیں گے۔ سیاست بھی اُدھر کریں گے مگر حکمرانی یہاں ہو گی لہٰذا اب بھی بھوکے ننگے لوگوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں مت الجھیں، مل کر ان سب کا احتساب کریں۔ ملکی احتساب اداروں کو تو انہوں نے زیر کر لیا ہے وہ اب ان سے کچھ نہیں پوچھ سکتے پوچھیں گے تو زیر عتاب آ جائیں گے لہٰذا عوام ہی ہیں جو اپنے احتجاج کی صورت یہ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ جناب عالی! یہ جو ڈھیروں دولت ہے تمہارے پاس کہاں سے آئی۔ وہ غریب کیوں ہیں اور تم امیر کیوں ہو۔ ہماری زندگیوں میں بادشمال ہی کیوں چلتی ہے اور تمہاری زندگیوں میں باد نسیم کے جھونکے کیوں چلے آتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت لوگ تھوڑا اس پوزیشن میں ہیں مگر انہیں احتجاج کرنے سے روکا جا رہا ہے سوال نہیں کرنے دیا جا رہا۔ چلیے یہ بھی کر دیکھیے مگر ان کے ذہنوں میں موجود پکنے والے لاوے کو نہیں روکا جا سکتا اور وہ ضرور ایک روز پھٹے گا بلکہ پھٹنے والا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اہل اقتدار کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان کے ذاتی اڑن کھٹولے ہر وقت تیار کھڑے ہوتے ہیں جو چند لمحوں میں محو پرواز ہو جائیں گے۔ جینا مرنا تو یہاں محکوموں کو ہے ان کے بچوں کو ہے۔ لہٰذا وہ جاگیں جاگ بھی رہے ہیں لہٰذا انہیں سوچ سمجھ کر نعرے لگانا ہوں گے اور انہیں یہ بھی جاننا ہو گا کہ ان کے نمائندے ان کے نہیں اشرافیہ کے ہیں۔ یہ محض انہیں جھاکا دیتے ہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے حقیقی نمائندے ہیں کیونکہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں مگر یہ سب مرضی اپنی کرتے ہیں تحفظ اپنے اور اپنے قبیلے کا کرتے ہیں قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور قومی دولت کو ان ہی ممالک میں پہنچا دیتے ہیں جن سے قرضہ لیتے ہیں یعنی قرضہ اتاریں عوام اور کھائیں یہ باگڑ بلے۔ اس وقت جو ٹیکسوں کی آندھیاں چلی ہوئی ہیں ان ہی کی مہربانیوں سے ہے۔ انتہائی بے دردی سے یہ عوامی سرمائے کو سمیٹتے ہیں انہیں کوئی شرم نہیں کوئی حیا نہیں لوگ خود کشیاں کرنے لگے ہیں۔ غربت نے جسم فروشی پر مجبور کر دیا ہے۔ اعضا تک فروخت کیے جانے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں مگر ان مکار عیار اور بے حس حکمرانوں کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے تا کہ یہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں ان کی نسلیں غریبوں کمزوروں پر حکمرانی کرتی رہیں اور یہ اپنے آشیر بادیوں کو راضی کرتے رہیں کوئی مرے یا جئے ان کو اس کی ذرا بھر پروا نہیں کیونکہ ان کے دل میں رحم نہیں کسی کے لیے درد نہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ارتقائی عمل رکتا نہیں آگے بڑھتا ہے لہٰذا یہ دن بھی ایسے ہی نہیں رہیں گے بدلیں گے نیا سویرا ضرور طلوع ہو گا۔