کابل: طالبان نے افغان دارالحکومت کابل کو طاقت کے زور پر حاصل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان قیادت کی جانب سے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا گیا ہے کہ جنگجو کابل شہر میں داخل نہ ہوں اور خود کوشہر کے داخلی راستوں تک محدود رکھیں۔
طالبان قیادت کے مطابق طالبان کے اشرف غنی حکومت سے پرامن انتقال اقتدار کے لیے مذاکرات جاری ہیں، اس لیے نہیں چاہتے کہ عام شہریوں کو نقصان پہنچے۔
اس سے پہلے افغان وزارت داخلہ نے تصدیق کی تھی کہ طالبان تمام اطراف سے کابل میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس وقت کابل کا زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور صرف کابل ائیرپورٹ سے باہر جانے کا راستہ بچا ہے جہاں طویل قطاریں لگی ہیں۔
امریکا نے سفارتی عملے کو کابل سے نکالنے کے لیے پانچ ہزار فوجی بھجوائے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ سفارتی عملہ نکالنے میں رکاوٹ نہ ڈالیں جبکہ نیٹوعہدیدار کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سٹاف کے کئی ارکان کو کابل میں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
دوسری جانب کابل میں افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کی سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات جاری ہے جس میں افغان حکومت کے وفد کو قطر بھیج کر طالبان سے مذاکرات کیلئے کوششوں پر بات چیت ہو رہی ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان سے امریکا اور اتحادی ممالک کی فورسز کے انخلا کے بعد تیزی سے طالبان آگے بڑھے ہیں اور اب کابل کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
اس سے قبل طالبان نے جلال آباد شہر پر قبضہ کرکے طورخم بارڈر کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے صورتحال کے پیش نظر سرحدی کراسنگ کو بند کر دیا ہے۔