کابل: طالبان نے سرحدی شہر جلال آباد فتح کرنے کے بعد طورخم بارڈر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ رات گئے طالبان فورسز نے طورخم پر چڑھائی کی اور سرحدی راہداری کا کنٹرول سنبھال لیا۔
طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی حکام نے بھی طورخم بارڈ کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ فورسز کے اضافی دستے تعینات کر دیئے گئے ہیں۔
تفصیل کے مطابق چمن کے بعد طالبان طورخم پر بھی قابض ہو گئے ہیں۔ گزشتہ رات طالبان فورسز نے افغانستان کے سرحدی شہر ننگرہار پر چڑھائی کی تھی۔ طالبان فورسز نے سرحدی راہداری کے تمام دفاتر اور چوکیوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی حکام نے طورخم بارڈ کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے جس سے دونوں ممالک میں لوگوں کی نقل وحمل اور تجارتی سامان کی سپلائی معطل ہو گئی ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان میں پھنسے پاکستانیوں کو نکالنے کی کوششیں جاری ہیں اور اس مقصد کیلئے طورخم بارڈر پر صرف نادرا اور کسٹم دفاتر میں عملہ موجود رہے گا۔
خیال رہے کہ طورخم افغانستان کی سب سے بڑی سپلائی لائن ہے جس کی بندش سے کابل انتظامیہ کا دنیا بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
افغان دارالحکومت کابل کے سوائے تمام بڑے شہروں پر طالبان کا قبضہ ہو گیا ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد میں داخل ہو گئے اسے سرنگوں کر چکے ہیں۔
افغان رکن اسمبلی ابرار اللہ مراد نے جلال آباد کے قبضہ میں جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبائلی عمائدین طالبان رہنماؤں سے مذاکرات کر رہے ہیں کہ حکومتی ارکان کو بغیر کچھ کہے جانے دیا جائے۔
ابرار اللہ مراد کا کہنا تھا کہ آج جب شہر جاگا تو ہر طرف طالبان کے سفید جھنڈے لہرا رہے تھے۔ افغان فورسز طالبان جنگجوؤں سے اس قدر خوفزدہ تھیں کہ انہوں نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی اور بغیر لڑائی کے ہتھیار پھینکے اور جلال آباد کو ان ک حوالے کر دیا۔
سوشل میڈیا پر اپ لوڈ حالیہ ویڈیوز اور فوٹوز سے بھی اس خبر کی تصدیق ہوتی ہے جن میں طالبان جنگجوؤں کو جلال آباد کے گورنر آفس میں بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ جلال آباد کا شمار افغانستان کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ 2014ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آباد 3 لاکھ 56 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر بین الاقوامی تجارت کیلئے اہم گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستانی بارڈر تورخم سے صرف 65 کلومیٹر دور ہے۔
طالبان اب تک افغانستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں پر قابض ہو چکے ہیں، اشرف غنی حکومت صرف کابل تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کا پورے افغانستان سے رابطہ کاٹ دیا گیا ہے۔
فرانس اور کینیڈا میں تعینات رہنے والے سابق افغان سفیر عمر صمد نے جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہمارے ملک کی صورتحال بہت کشیدہ ہو چکی ہے، اگر دنیا چاہتی ہے کہ کابل کی پیشقدمی کو روکے تو انھیں صدر اشرف غنی پر استعفے کیلئے دباؤ ڈالنا چاہیے۔
عمر صمد کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اشرف غنی کے استعفے کے بعد طالبان قیادت عبوری حکومت کے قیام کیلئے راضی ہو جائیں۔ اگر صدر غنی اپنی ضد پر اڑے رہے اور استعفیٰ نہ دیا تو کابل میں خونریزی ہونے کا خدشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ اشرف غنی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں اور اقتدار چھوڑنے پر راضی نہیں لیکن انھیں سوچنا چاہیے کہ ملکی عوام کی خاطر ان کے اس فیصلے سے کابل حملے سے بچ جائے گا۔