اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار ایک حقیقت ہے، پاکستان کی ایک جانب بھارت اور دوسری جانب افغانستان ہیں، اس لحاظ سے ہمارے خطے کو کچھ مشکلات درپیش ہیں، ہمیں اپنے زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنا ہوتے ہیں، فرقہ وارانہ فسادات کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ بھارت میں بیٹھے پاکستان مخالف عناصر کا ہے، ریاست مخالف بیانیہ کو بھارت سے سپورٹ ملی، ڈیجیٹل میڈیا ونگ کی رپورٹ میں پاکستان کو درپیش ہائبرڈ وار کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ امریکا آج سپر پاور اس لئے ہے کہ اس کے ہمسایہ میں امن ہے جبکہ پاکستان کی ایک جانب بھارت اور دوسری جانب افغانستان ہیں، اس لحاظ سے ہمارے خطے کو کچھ مسائل درپیش ہیں، ہمیں اپنے زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوویت یونین نے 1979ء میں افغانستان پر قبضہ کیا۔ اسامہ بن لادن نے نیویارک پر حملہ کیا، امریکہ نے افغانستان سے انخلاکا فیصلہ کیا، یہ تمام فیصلے ہم سے پوچھ کر نہیں ہوئے لیکن ان کے اثرات کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمیں اصل اور جعلی خبر میں فرق تلاش کرنے کا چیلنج درپیش ہے، امریکہ کے سابق صدر اوباما نے 2013ء میں کہا تھا کہ حکومتوں کا سب سے بڑا چیلنج فلو آف انفارمیشن سے نمٹنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں جب ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو تین گھنٹوں کے دوران ہزاروں ٹویٹس ہوئے کہ کراچی میں سول وار شروع ہو گئی ہے، ان سارے ٹویٹس میں ہندوستان کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے ایک مسلک کے بارے میں بھی بہت سے ٹویٹس آئے، ریاست مخالف بیانیہ کو بھارت سے سپورٹ ملی۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ فسادات کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ بھارت میں بیٹھے اینٹی پاکستان عناصر کا ہے۔ فواد چودھری نے کہا کہ جن ملکوں کے پاس بیانیہ نہ ہو، اکٹھا رہنے کا جواز نہ ہو اور دشمن ہر وقت تاک میں رہے تو اس کے لئے بیانیہ کی جنگ زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ میں جب پہلی بار وزیر اطلاعات بنا تو اس وقت میں نے کہا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا روایتی میڈیا کی جگہ لے گا، اس پر میری مخالفت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے 2018ء میں وزارت خزانہ کو خط لکھا تھا جس میں کہا کہ ایڈورٹائزنگ جس طرح آگے بڑھ رہی ہے، آئندہ پانچ سال میں یہ تقریباً 12 ارب ہو جائے گی، 2018ء میں یہ چار ارب روپے تھی اور صرف تین سالوں میں یہ 25 ارب روپے تک پہنچ گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف گوگل اور فیس بک تقریباً 7 ارب روپے ایڈورٹائزنگ کی مد میں پاکستان سے حاصل کر رہے ہیں، آئندہ دو سے تین سالوں میں فارمل میڈیا ایڈورٹائزنگ پیچھے رہ جائے گی جبکہ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ آگے بڑھے گی۔
چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ہمیں ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ پر نظر رکھنی ہے، اس کو ریگولیشن میں لانا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جعلی، فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز خبروں پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کر رہے ہیں، ہمارا مستقبل ڈیجیٹل میڈیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ اس وقت ملک میں تقریباً 114 چینلز کام کر رہے ہیں جن میں 31 کرنٹ افیئرز اور 42 تفریحی چینلز شامل ہیں، ایف ایم ریڈیوز کی تعداد 258 ہے، ان میں سے 196 کمرشل اور باقی نان کمرشل ہیں۔ انٹرنیٹ ٹی وی کے تقریباً 12 لائسنس ہیں جن میں نیا ٹیل، پی ٹی سی ایل اور ورلڈ کال شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 1672 اخبارات میں سے 800 کے قریب جعلی اخبارات ہیں جو شائع ہی نہیں ہوتے۔ ایسی اخبارات کے اشتہارات کم کریں گے تو اس پر شور مچے گا کہ ظلم ہو گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ملک میں موبائل فونز کنیکشنز کی تعداد تقریباً 18 کروڑ ہے جبکہ کچھ صارفین کے پاس ایک سے زائد سمیں موجود ہیں، اس طرح تقریباً 10 سے 12 کروڑ موبائل صارفین ہیں۔ تھری جی اور فور جی صارفین کی تعداد 98 ملین ہے، براڈ بینڈ سبسکرائبرز کی تعداد 10 کروڑ کے قریب ہے، ہمارے ہاں انٹرنیٹ کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ واٹس ایپ پر تقریباً ساڑھے چھ کروڑ لوگ ہیں، یوب ٹیوب پر پانچ کروڑ 60 لاکھ، فیس بک پر 3 کروڑ 70 لاکھ لوگ موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی ایپ ٹک ٹاک ہے جس پر دو کروڑ لوگ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسٹا گرام، لنک ایدن اور ٹویٹر پر تقریباً پانچ ملین لوگ ہیں، ٹویٹر پر زیادہ تر بااثر طبقہ ہے۔ نیٹ فلیکس اور ایمازون او ٹی ٹی سروسز فراہم کر رہے ہیں، انٹرٹینمنٹ عملی طور پر شفٹ ہو گئی ہے، ان کی ایڈورٹائزمنٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ زیادہ لوگ ڈیجیٹل کی طرف شفٹ ہوں گے، ڈیجیٹل منظر نامہ بڑھے گا، ڈیجیٹل میڈیا پاکستان کا میڈیا منظر نامہ پیش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ایک سخت حقیقت ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارا فارمل میڈیا، ٹی وی یا اخبارات ختم ہو جائیں گے بلکہ ان کا طریقہ کار بدل جائے گا۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ عوامی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے، اس میں نفرت انگیز اور نازیبا مواد کو روکنے کے لئے ریگولیشنز کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مثال دی کہ ایک شخص اپنے محلے کی بچیوں کی وڈیو بنا کر ٹک ٹاک پر ڈال دیتا ہے کہ یہ فلاں کی بیٹیاں ہیں اور فلاں جگہ سے سکول جا رہی ہیں، بیرون ملک رہنے والے لوگوں کو تو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن ہم جانتے ہیں کہ محلے کی کسی بچی کی تصویر بنا کر ٹک ٹاک پر ڈالنے سے ہو سکتا ہے کہ ان کا سکول جانا ہی بند ہو جائے، اس لئے ہمیں ایسے معاملات پر ریگولیشنز لانا ہوں گی۔