پشاور: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ہم سے جووعدے کیے گئے وہ وعدے یہ تھے کہ مارچ میں اس حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور مارچ گزر گیا اب ملین مارچ ہی واپس رہ گیا ہے۔
جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن باچا خان مرکز پشاور پہنچے اور اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین سے ان کے بھائی میاں سریر حسین کے انتقال پر تعزیت اور فاتحہ خوانی کی۔ بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں سے اے پی سی یا حکومت مخالف تحریک پر اختلافات نہیں لیکن بعض امور پر اختلاف ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ایک طرف تو ہم اسے ناجائز حکومت کہتے ہیں اور نئے الیکشن کا مطالبہ بھی کرتے ہیں دوسری طرف بڑی اپوزیشن پارٹیاں حسب ضرورت حکومت کو ووٹ دیتی ہیں، یہ تضاد ہے اور اس روش کو ترک کرنا چاہیے، قول و فعل میں تضاد سے ہم عوام کا اعتماد نہیں جیت سکتے، ہمارے رابطے جاری ہیں، لیکن اس تذبذب سے نکلنا ہوگا اور یکسو ہونا ہوگا، تاکہ عوام اپوزیشن کی تحریک پر اعتماد کریں۔
ایف اے ٹی ایف سے متعلق پارلیمنٹ میں حالیہ قانون سے متعلق فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہم یوم آزادی منارہے ہیں دوسری طرف ایسی قانون سازی کررہے ہیں جو آزادی کی نفی ہے، آج اگر اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد آئے جو پاکستان کے قانون کے خلاف ہو تو ہماری آزادی تو ختم ہوگئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اقوام متحدہ اگر ہم سے کہے کہ چند گھنٹوں میں اس مطالبے پر عمل کیا جائے تو ہم تاخیر نہیں کرسکیں گے، قرارداد میں رکاوٹ بننے والا شخص قابل سزا ٹہرے گا، کروڑوں کا جرمانہ ہوگا اور قید کی سزا ہوگی، اگر اقوام متحدہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کے خلاف قرارداد لائے تو پھر پاکستان کیا کرے گا،عالمی قوتیں ایف اے ٹی ایف کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے لیے اس حکومت کو لائی ہیں، ہمارا بڑی جماعتوں سے شکوہ ہے کہ انہیں اس کی سہولت کاری کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔
امیر جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ امارات اور اسرائیل معاہدہ فلسطینیوں کی 70 سالہ جدوجہد آزادی کی نفی ہے، دنیا میں کشمیر اور فلسطین کی جدوجہد آزادی کی قدر و قیمت نہیں، کمزور ممالک کی گردن مروڑ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یو اے ای کا اقدام درست نہیں اس کی اصل ملکیت امریکا کے پاس ہے، یہ لوگ برائے نام بادشاہ ہیں بلکہ اصل میں بڑی قوتوں کے کٹھ پتلی ہیں، یو اے ای کا عمل نہ تو عالم عرب کی نمائندگی ہے نہ امت مسلمہ کا فیصلہ ہے، امت کو واضح موقف کے ساتھ سامنے آنا چاہیے وگرنہ وہ آگے بھی بڑھ سکتے ہیں اور فلسطینیوں کی جدوجہد کو ضائع کرسکتے ہیں۔
حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنے سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ جو لوگ اس حکومت کو اقتدار میں لائے ہیں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مارچ میں حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی، مارچ تو گزر گیا اب ملین مارچ ہی رہ گیا ہے۔ ختم نبوت کا مسئلہ تنہا پرواز نہیں بلکہ اس میں اے این پی ہمارے ساتھ ہوگی۔