کم عمر لڑکیوں کو سیکس کے لیے استعمال کرنے والے گرومنگ گینگز کے پیچھے اکثریت پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کی، حقیقت کیا؟

کم عمر لڑکیوں کو سیکس کے لیے استعمال کرنے والے گرومنگ گینگز کے پیچھے اکثریت پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کی، حقیقت کیا؟

لندن: برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے حال ہی میں متعدد بار ایسے بیانات دیے ہیں کہ ملک میں کم عمر سفید فام لڑکیوں کو سیکس کے لیے استعمال کرنے والے گرومنگ گینگز کے پیچھے اکثریت پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کی ہے۔

وزیر داخلہ یہ بیانات ایک بڑے تنازع کی وجہ بن گئے ہیں۔اور ان کی بڑی وجہ  2020 رپورٹ ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سیکس گرومنگ کے کیسز میں مجرم پائے جانے والوں میں سب سے زيادہ تعداد سفید فام برطانوی شہریوں کی ہے۔

سویلا بریورمین نے بی بی سی کے ’سنڈے ود لورا کیونسبرگ‘ نامی پروگرام میں کہا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ان گینگز میں اکثریت برطانوی پاکستانی مردوں کی ہے۔ حکام نے، چاہے وہ سوشل ورکر ہوں، ٹیچر ہوں، یا پولیس اہلکار ہوں جب ان کو اس مسئلے کا علم ہوا تو انھوں نے اسے نظر انداز کردیا۔‘


بی بی سی کے علاوہ انھوں نے سکائی نیوز پر یہ کہا تھا کہ ’گرومنگ گینگز میں ایسے برطانوی پاکستانی مرد ملوث تھے جو ایسی ثقافتی اقدار رکھتے ہیں جو برطانوی اقدار سے براہ راست متصادم ہیں۔‘ 

بی بی سی کے مطابق برطانیہ میں درجنوں مسلم تنظیموں نے رشی سونک کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر داخلہ کا بیان ’نسل پرستی پر مبنی ہے اور سماج کو منقسم کرنے والا ہے۔‘

سیاسی سطح پر بھی برطانوی حکومت پر تنقید ہو رہی ہے اور بعض سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سویلا بریورمین نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ تارکین وطن کو کتنا ناپسند کرتی ہیں۔