عمران خان کی حکومت رخصت ہو چکی ہے۔میاںشہباز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو شہباز شریف کیلئے یہ وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج کے بجائے ، کانٹوں کا ایک بستر ہے۔ ملک کے ڈھیروں مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک میں ا نتہائی بے یقینی کی کیفیت تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد بے یقینی کی یہ کیفیت ختم ہوتی۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں ایک نیا طوفان برپا ہے۔ عمران خان کا موقف ہے کہ انہیں ہٹانے کے لئے سازش کی گئی ہے۔بقول ان کے ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے انکار کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی حکومت کے ہاتھ میں ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں۔ کئی دن سے ہم ان الزامات کی تکرار سن رہے ہیں۔ کل ڈی۔ جی آئی۔ ایس۔ پی ۔ آر میجر جنرل بابر افتخار نے میڈیا کے نمائندوں سے تفصیلی بات چیت کی ۔ ان کی گفتگو سے ا ن تمام الزامات کی تردید ہو گئی ہے۔ ڈی۔ جی صاحب نے واضح کیا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں کسی سازش کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی ملک نے ہم سے فوجی اڈے نہیں مانگے۔ ایب سو لوٹلی ناٹ کا لفظ( جس کا اسقدر چرچا کیا جا تا ہے) عمران خان نے(کسی ملک کو نہیں، بلکہ) ایک ٹی۔ وی اینکر کو انٹرویو کے دوران کہا تھا۔ اسی طرح جب ڈی ۔جی صاحب سے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفو ظ ہاتھوں میں ہونے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے یہ بھی کہا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ ڈی۔ جی ، آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کی اس گفتگو کے بعد الزامات کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے۔
انتشار کی سیاست کرنے والوں سے گزارش ہے کہ خدا کے لئے اس ملک میں سکون آنے دیں۔ لوگوں کے اعصاب نارمل ہونے دیں۔ لوگوں کی نیندیں اور آرام واپس آنے دیں۔ لوگوں کے معمولات زندگی بحال ہونے دیں۔ یہ اشتعال، یہ انتقام ، یہ لڑائیاں، یہ گالی گلوچ کا ماحول ختم ہونے دیں۔ ایساافسوسناک ماحول بن چکا ہے کہ نہ کوئی اٹھنے کے لائق ہے، نہ کوئی بیٹھنے کے لائق۔نہ کوئی کسی ریستوران میں کھانا کھانے کے لائق، نہ کسی پارک میں جانے کے لائق۔ نہ کوئی کسی جگہ سکون سے سفر کرنے کے لائق ہے۔ یہ دیکھتے ہی دیکھتے ہم نے پاکستان کو کیا بنا دیا ہے؟ ہم تو ایسے نہیں تھے۔ سیاست پہلے بھی ہوتی تھی۔ سیاسی مخالف پہلے بھی ہوتی تھی۔ متحارب، مخالف سیاسی جاعتیں الیکشن بھی لڑا کرتی تھیں۔ ایک دوسرے کے خلاف نوک جھوک بھی ہوتی تھی۔ الزامات تراشی بھی ہوتی تھی۔ لیکن یہ نہیں ہوتا تھا کہ بات کرنا مشکل ہو جائے۔ کسی کی طرف انگلی اٹھانا مشکل ہو جائے۔ کسی کے خلاف نوک زباں پر کوئی بات لانا مشکل ہو جائے۔ کسی کے بارے میں آزادانہ رائے رکھنا مشکل ہو جائے۔ خدا کے لئے اب اس کلچر کو ختم کریں۔ ملک دیکھیں کدھر جا رہا ہے۔ ہمارے پاس پڑوس میں واقع سری لنکا دیوالیہ ہو گیا ہے۔ اس نے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا ہے۔ ہم بھی وہیں کھڑے ہیں۔ خزانہ خالی پڑا ہے۔ کم و بیش گیارہ ارب ڈالر کے جو زر مبادلہ کے ذخائر موجود ہیں وہ دوست ممالک نے ہمارے ہاں فقط "پارک " کر رکھے ہیں۔ یعنی ہم ان کو استعمال نہیں کر سکتے۔ وہ ممالک جب چاہیں انہیں نکال کے لے جائیں گے۔
اس کے علاوہ داخلی قرضے ہیں۔ معاشی ماہرین ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یوں سمجھیں کہ ہمارے پاس زر مبادلہ کے ذخائر ہیں ہی نہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں سود بھی دینا ہے۔ملک بھی چلانا ہے۔ اپنے دفاع کے لئے دفاعی اخراجات بھی کرنے ہیں۔ سرکاری اخراجات بھی کرنے ہیں۔ تعلیم صحت اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی خرچ کرنا ہے۔ روزمرہ زندگی کے معمولات بھی چلانے ہیں۔ یہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ بہت اچھا ہو کہ مسائل کے حل کے لئے سیاست دان مل بیٹھیں۔ کل کسی ایک کی حکومت تھی۔ وہ چلی گئی ہے۔ آئینی طریق کار کے مطابق ہٹائی گئی ہے۔ موجودہ حکومت بھی کوئی دائمی نہیں ہے۔ یہ بھی ایک دن رخصت ہو جائے گی۔ پاکستان پہلے بھی موجود تھا اوراللہ کے فضل و کرم سے بعد میں بھی موجود رہے گا۔ لہٰذ ا حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اس ملک کی فکر کریں۔ ایک جماعت کی حکومت چلی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مذہب کا نام لے کر ۔ امریکہ کا نام لے کر۔سازش کا الزام لگا کر، عوامی جذبات کو بھڑکائیں ۔ لوگو ں کو اشتعال دلائیں۔ غدار غدار کے نعرے لگائیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں پر کوئی غدار نہیں ہیں۔ سب پاکستانی ہیں اور محب وطن پاکستانی ہیں۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی۔ میاں نوا ز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ گالی گلوچ کر کے ان سے اس بات کا کریڈٹ نہیں چھینا جا سکتا۔
تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں سیاسی مخالفتیں ضرور موجود ہیں۔ سیاسی مفادات بھی ہر سیاسی جماعت رکھتی ہے۔ لیکن نہ تو حکومت سے جانے والے غدار تھے اور نہ ہی حکومت میں آنے والے غدار ہیں۔ کوئی سیاسی رہنما پاکستان کی زمین کا ٹکرا بیچنے والا نہیں ہے۔ یہاں تو مجیب الرحمن کو بھی غداری کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا اور گول میز کانفرنس میں لا بٹھایا تھا۔ ان کے بارے میں بھی کہا گیا تھا کہ وہ غدار نہیں ہیں۔
ہمارے تعلیم کے مسائل حل طلب ہیں۔ شعبہ صحت پر توجہ درکار ہے۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ خواتین کے مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ امن عامہ کے پہاڑ جیسے مسائل موجود ہیں۔یہ ہم کس گندے کھیل میں پڑے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ ہمارے وہ لوگ جنہوں نے قوم کو رہنمائی دینی ہے، جو حکومت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں،اور ملک چلانے کے دعویدار ہیں۔ وہ اس قوم کو کہاں لے جا رہے ہیں۔اس قوم میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ نفرتیں اتنی زیادہ ہو گئی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے روا دار نہیں رہ گئے۔ اس سیاسی عدم برداشت نے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دکھیل کر رکھ دیا ہے۔ سیاسی مخالفت اور انتقام میں اندھے ہو جانے کے بجائے اس امر کی تفہیم ضروری ہے کہ کسی مخالف سیاسی جماعت کی حکومت آگئی ہے تو اسے صبر و تحمل سے برداشت کریں۔یہ بھی یاد رکھیں کہ دوسری جماعتوں اور ان کے حامیوں نے بھی آپ کو ساڑھے تین برس برداشت ہے۔خدا کے لئے اس ملک پر رحم کھائیں اور اسے آگے بڑھنے دیں۔