اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ کسی پر احسان نہیں ۔ جب دیکھا گیا کہ ملکی صورتحال کے سبب تمام ادارے بھی مشکلات کا شکار ہوگئے تو پی ٹی آئی حکومت کی اندھا دھند حمایت سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ یہی بات عمران خان اور ان کے حامیوں سے برداشت نہیں ہو رہی ۔ ان دنوں فوج پر سوشل میڈیا اور احتجاجی اجتماعات کے ذریعے جو حملے ہو رہے ہیں وہ اسی غصے کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ یہ سب اچانک ہورہا ہے ۔ جس انداز میں یہ مہم شروع کی گئی اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے منصوبہ بہت پہلے تیار کرلیا گیاتھا ۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل ہوتے ہی لاہور میں پی ٹی آئی کے مظاہرے میں ‘‘ چوکیدار چور ہے ‘‘ کے نعرے لگائے گئے ۔ عمران خان کی ایک پرانی ویڈیو موجود ہے جس میں اپنے ساتھیوں کو کہہ رہے ہیں کہ بیس ہزار بندے سڑکوں پر لے آؤ تو جرنیلوں کی پتلونیں گیلی ہو جاتی ہیں ۔ اب انہی جرنیلوں کی مدد سے ساڑھے تین سال تک حکومت کرنے کے بعد انہی کے گلے پڑنے پر اتر آئے ہیں ۔ عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کو پیغامات بھجوائے مگر اس بار حزب اختلاف انہیں بالکل لفٹ کرانے کے موڈ میں نہیں تھی ۔ پھر یہ فیصلہ کیا کہ جب سپیکر اور ڈپٹی سپیکر ہی اپنے ہیں تو پھر ووٹنگ کرانے کا موقع ہی نہیں آنے دیں گے ۔ ایسا ہی ہوا جب ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تمام قاعدے قانون روند کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیاتو معاملہ سپریم کورٹ میں آیا جس نے حکومت کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ووٹنگ کرانے کا حکم جاری کیا ۔ یہ فیصلہ اتنا واضح تھا کہ اگر مگر کی کوئی گنجائش موجود ہی نہیں تھی ۔ اس کے باوجود مقرر کردہ دن میں صبح دس بجے سے شروع ہونے والا اجلاس سحری کے وقت تک جاری رکھا گیا ۔ اسی دوران سپیکر اسد قیصر نے واضح کردیا کہ وہ عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کریں گے ۔ یہ تماشا دیکھ کر قومی سلامتی کے ادارے ہی نہیں خود عدالت عظمیٰ بھی حرکت میں آگئی ۔ کسی اور ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھی کھول دیا گیا ۔ اسی دوران عمران خان نے اپنے چند پسندیدہ صحافیوں کو وزیر اعظم ہاؤس مدعو کیا اور پورے اعتماد سے بتایا کہ کسی صورت ووٹنگ نہیں ہونے دی جائے گی ۔ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ عمران خان کو بتایا گیا کہ دو ملاقاتی وزیر اعظم ہاؤس پہنچ چکے ہیں پہلے آپ ان سے مل لیں ۔ ان افسروں نے بہت مختصر گفتگو کی ۔ وزیر اعظم ہاؤس میں موجود صحافیوں کو ہی نہیں بلکہ وزرا کو بھی اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب دیکھا کہ عمران خان ان ملاقاتیوں کے جاتے ہی خود بھی بغیر کچھ کہے سنے بنی گالہ پہنچ چکے ہیں ۔ اسی دوران پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر قیدیوں والی وین بھی کھڑی کردی گئی۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر پر واضح ہوگیا کہ عدالتی حکم عدولی کا معاملہ لٹکایا نہیں جاسکتا ورنہ جیل جانا پڑے گا ، نااہلی کا سامنا بھی کرنا ہوگا ۔ سو سرنڈر کرنا پڑا ۔ اجلاس کی صدارت پینل آف چیئر کے ر کن سابق سپیکر ایاز صادق نے کی اور گنتی کراکے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا اعلان کردیا ۔ پارلیمنٹ میں یہ جمہوری عمل مکمل ہورہا تھا دوسری طرف پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل حرکت میں لایا گیا ۔ اس سیل کے اصل بانی پاپاجونز والے ارب پتی ریٹائرڈ جنرل عاصم باجوہ ہیں جبکہ اسے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف
غفور کے دور میں خوب پروان چڑھایا گیا۔جہاں ایک طرف سوشل میڈیا پر فوجی قیادت پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی وہیں دوسری طرف عمران خان کی کال پر ہونے والے مظاہروں میں بھی آرمی لیڈر شپ کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی گئی ۔ پی ٹی آئی کے بیرون ملک موجود حامیوں کو پہلے ہی تیار کردیا گیا تھا کہ آپ نے کونسے پلے کارڈ اور بینر اٹھا کر جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف نعرے لگانے ہیں ۔ تحریک عدم اعتماد کی اس تمام سیریز میں عمران خان کی سر توڑ کوشش رہی کہ کسی طرح مارشل لا لگ جائے اور وہ سیاسی جماعتوں کے روبرو سرنڈر کرنے سے بچ جائیں ۔ مارشل لا تو نہیں لگ سکا اور قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو نیا وزیر اعظم منتخب کرلیا۔ انہوں نے وزیر اعظم بنتے ہی اعلان کیا کہ جس مبینہ خط کو بنیاد بنا کر کر عمران خان اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے خلاف پراپیگنڈا کررہے ہیں اس کا پردہ چاک کرنے کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا اور اجلاس میں اس پاکستانی سفیر کو بھی طلب کیا جائے گا جس نے یہ مراسلہ تحریر کیا ۔ یہ سنتے ہی پی ٹی آئی والوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور انہوں نے کہہ دیا ہم نہیں مانیں گے ۔ اس لئے حکومت نے اپنے آخری دنوں میں متنازع ریٹائرڈ جنرل طارق خان کے ذریعے اس مراسلے کی انکوائری کرانے کا اعلان کیا ۔ جنرل طارق خان کی امریکا میں رشتے داریاں ہیں ۔ انہوں نے فوری طور ‘‘ سمجھداری ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے معذرت کرلی ۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے ایک اور بڑے سپورٹر جنرل( ر) ہارون اسلم نے جو عوام کو نقشوں کی مدد سے سمجھاتے رہتے ہیں کہ عمران حکومت کے خلاف کیا سازشیں ہورہی ہیں ایک ویڈیو پیغام جاری کرکے اظہار لاتعلقی کردیا ۔ عمران خان نے اس جعلی مراسلے کو جو شاہ محمود قریشی نے اپنے سفیر سے لکھوایا کیش کرانے کی کوشش میں پاکستان کی پوری خارجہ پالیسی دائو پر لگا دی۔ اس کام میں انہیں کئی ریٹائرڈ فوجی افسروں کی حمایت حاصل ہے جن کے اپنے زیادہ تر مفادات اور اولادیں امریکا اور یورپ میںہیں۔ کئی سال لگا کر جو برانڈ بنانے کی کوشش کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب خود عجیب و غریب حالات سے دوچار ہے ۔ فارمیشن کمانڈروں کی میٹنگ بلا کر کہا جارہا ہے فوج کو اپنی قیادت پر پورا اعتماد ہے ۔ مذموم مہم سوسائٹی اور فورسز میں خلیج پیدا کرنے کی سازش ہے جسے ناکام بنا دیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ہی دبائو کا یہ عالم ہے کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس نے نئے منتخب وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی ۔ اس وقت فوج کے خلاف مہم ان کے اپنے پوش علاقوں سے چل رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر برسرپیکار مجاہدین وہی ہیں جو خود پالے اورانکی بھاری تنخواہیں بھی لگوائیں ۔ ان سب کے خلاف کارروائی کرنے کا مرحلہ آیا تو پتہ لگا سب اپنے ہی بھانجے بھتیجے ہیں ۔ نمونے کے لئے یہ یاد دھانی ہی کافی ہے کہ 2014 کے دھرنوں میں جب جنرل عاصم باجوہ آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے تو عین انہی دنوں امریکا میں موجود ان کا نوعمر ارب پتی بیٹا نواز شریف اور ان کی پوری کابینہ کو سرعام پھانسی دینے کے لئے سوشل میڈیا پر مہم چلاتا رہا اسی طرح کی بیک گرائونڈ والے کئی اور نوجوان ان دنوں بھی بیرون ملک بیٹھ کر یہی دھندہ کررہے ہیں اور یہ بلا معاوضہ نہیں۔ ایوان صدر میں علوی صاحب کی نگرانی میں انکا بیٹا بھی ایک بڑا سیل چلا رہا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ ان کے فنڈز بند کردے بڑی حد ‘‘ افاقہ ‘‘ ہو جائے گا ۔ لیکن ریاستی سرپرستی میں معاشرے میںجو گند جو گھولا گیا ہے ۔ اسے صاف کرنے میں وقت تو لگے گا ۔ ملک میں اس وقت افراتفری اور اداروں کو گالیاں دینے کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس کو درست پس منظر میں دیکھنا چاہئے - صرف عمران خان ہی وزارت عظمیٰ سے فارغ نہیں ہوئے بلکہ ان کے ساتھ کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کے خواب بھی چکنا چور ہوچکے ہیں ۔ ان سب کو یقین تھا آنے والے آٹھ دس سال تک خوب مزے لوٹیں گے مگر ان کے ارمانوں میں اوس پڑگئی ۔ اب یہ شدید مشتعل ٹولہ کسی حد تک بے بس بھی ہوچکا ہے ۔ لیکن خطرناک اب بھی ہے ۔ ان دنوں سوشل میڈیا ، مخصوص ٹی وی چینلوں اور ٹائوٹ اینکروں اور یو ٹیوبرز کے ذریعے جو دھمکیاں دلائی جارہی ہیں وہ اسی شکست خوردہ سازشی ٹولے کی پھنکار ہے ، اس کے ساتھ نمٹنے کے لئے سیاسی بصیرت ہی کافی نہیں ۔آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قانون کی پٹاری میں بند کرنا ہوگا ۔ اس دوران عمران خان جتنے بڑے جلسے بھی کرلیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو کسی مہم جوئی پر آمادہ کرسکتے ہیں یا نہیں ، اگر کر بھی سکتے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ فاتح بن کر پھر نمودار ہو جائیں گے کیونکہ جن سیاسی حریفوں کے ساتھ مقابلہ ہے وہ بھی مکمل تیاری کئے بیٹھے ہیں ، ہماری رولنگ ایلیٹ نے اپنے فارغ اہل خانہ کو پی ٹی آئی میں شامل کراکے اقتدار کا کوئی کونا بھی خالی نہیں چھوڑا ، عام آدمی کو انسان نہ سمجھنے والا یہ طبقہ اس بات کو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وزیر اعظم انہی کی مرضی کا ہوگا ، حالانکہ وزیر اعظم کوئی بھی ہو اس کلاس کو کوئی فرق نہیں پڑتا ،عمران خان کا بت بنانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی بائیس سالہ جد وجہد سے کئی دوسرے لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں جن میں اکثریت سیاسی حرکات سے ناواقف افراد کی ہے ان کو زیادہ الزام نہیں دیا جاسکتا۔خرابی کی جڑ ایلیٹ طبقہ ہے۔
سازشی ٹولے کی پھنکار
08:51 AM, 15 Apr, 2022