انتہائی غیر متوقع صورتحال میں نئے وزیر اعظم مسند اقتدار پر برا جمان ہوئے ہیں، موجودہ اپوزیشن کی طرف سے یہ حکومت کو سرپرائز ہے،جو سارے مخالفین کو زندان میں ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی ،کپتان کے ہر خطاب کی تان اس پر آکر ٹوٹتی تھی کہ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا، لیکن انھیں خود اقتدار چھوڑنا پڑا،انھوں نے آخری حد تک اس سے چمٹے رہنے کی کاوش کی اور تمام تاخیری حربے استعمال کئے کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہ ہو،طویل اور عصاب شکن قومی اسمبلی کے اجلاس میں جب فیصلہ ہوتا دکھائی نہ دیا تو منصف اعلیٰ نے عدالت عظمیٰ کے دروازے رات کی تاریکی میں کھولنے کا حکم صادر فرمایا تاکہ کسی کو توہین عدالت کرنے کی جرأت نہ ہو، وفاقی دارالحکومت میں غیر معمولی صورت حال نے سنجیدہ حلقوں کو رنجیدہ کر دیا،پل پل بدلتے لمحات نئی خبر لا رہے تھے،کپتان میں نہ مانوں کی ضد پر قائم تھے۔
مقتدر طبقات کو اس غیر معمولی موقع پر مداخلت کرنا پڑی، بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ موصوف بضد تھے کہ اگر انھیں یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہو گی، مقدمات قائم نہیں ہوں گے تو وہ سپیکر کو ووٹنگ کا حکم صادر فرمائیں گے، این، آر، او نہ دینے کی رٹ لگانے والا خود این آر او کی ضمانت چاہ رہا تھا، کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق، ووٹنگ کا مرحلہ طے ہوا اور اس کے نتیجہ میں اسمبلی ممبران نئے قائد ایوان کا چنائو کیا، پنجاب کے سابق پردھان منتری اچھے منتظم کی شہرت رکھنے والی شخصیت کے حوالہ پوری ریاست کر دی گئی،مہنگائی، بے روزگاری،لاقانونیت سے تنگ عوام نے اس تبدیلی کو اپنے لئے اچھا شگون جانا ہے۔
جن حالات میں نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے یہ صورت حال قطعی پھولوں کی سیج والا معاملہ نہیں بلکہ کانٹوں سے بھرا بستر ہے،نئے وزیر اعظم کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیںان پر قابو پانا ،عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا، اپنے اتحادیوں کی توقعات پر پورا اترنا باقی ماندہ پارلیمانی مدت میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، عوام کو اس سرکار سے ریلیف کی توقع اس لئے بھی ہے، سابقہ حکمران کردار کے بجائے گفتار کے غازی ثابت ہوئے ،ان سطور کے لکھنے تک امید واثق ہے کہ کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہو گا، لیکن اب کی بار کابینہ میں چہرے ایک جماعت کے بجائے اتحادی پارٹیوں کا فیس لئے
ہوئے ہوں گے، نئے پردھان منتری کے لئے مشکل اس طرح بھی ہو گی کہ کام کرنے کا مزاج اپنا ہو گا جبکہ وزراء کا طرز عمل اپنی پارٹی کا عکس ہو گا،سابقہ سرکار کی خواہش تو یہی ہے کہ ایسے حالات پیدا ہوں کہ موجودہ حکومت جلد از جلد نئے انتخاب کی طرف جانے پر مجبور ہو جائے، لیکن وزیر اعظم خواہاں ہیں کہ وہ بقیہ ماندہ آئینی مدت ہی میںاپنی انتظامی صلا حیتیوں کا لوہا منوا جائیں تاکہ انھیں آیندہ الیکشن میں فائدہ لازم ہو۔
سابقہ اپوزیشن کا موقف رہا ہے کہ کپتان کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے کے لئے غیر جمہوری رویہ اختیار کیا گیا ہے، وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں لہٰذا نیا مینڈیٹ لینا ضروری ہے نیز یہ کہ ایسی انتخابی اصلاحات عمل میں لائی جائیں جس کے نتیجہ میں صاف شفاف قیادت اقتدار میں آ جائے، جمہوری اقدار کو فروغ ملے، تما م قومی ادار ے اپنی اپنی حدود میں کا م کریں۔کسی بھی ناگہانی صورت حال میں شخصیات کی طرف دیکھنا نہ پڑے بلکہ ادارے اتنے مضبوط ہوں کہ وہ خود راستہ بنا کر ہر بحران کو حل کرنے پر قدرت رکھتے ہوں۔
اس لئے گمان کیا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے اتحادی ایسی انتخابی اور معاشی ریفارمز ضرور لائیں گے جن کا راستہ صاف شفاف پرُ امن انتخاب کی طرف جاتا ہو، کیا ایسی اصلاحات کی جائیں گی کہ اس کی بنیاد پر عام شہری بھی پارلیمنٹ کا حصہ بن سکے،ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اس عمل میں شریک کیا جائے گا؟ سابقہ حکومتی پارٹی کو باہر رکھ کر یا موجودہ حکومت اپنے اتحادیوں کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ان اصلاحات پر مشاورت نہیں کرتی تو بعد ازاں اس پر بھی سوالات اٹھیں گے،یا ان اصلاحات کی کوکھ سے کوئی این آر او جنم لیتا ہے تو بھی انھیں شرف قبولیت حاصل نہیں ہو گا،تاہم ایسی انتخابی ریفارمز جو عام شہری کو پا رلیمنٹ کا ممبر بنا سکے۔انتخابی اخراجات سے اسے نجات دلا سکے تو یہ عوام کے دل کی آواز ہوں گی۔ بعض سیاسی طبقات متناسب نمائندگی کا طریقہ انتخاب اپنا نے پر زور دے رہے ہیںجس سے سیاسی شخصیات کے بجائے جماعتیں طاقتور ہوں ہر ووٹ اور ووٹر کی اہمیت ہو ں۔
نئے وزیر اعظم نئے عزائم کے ساتھ میدان میں اترے ہیں انھوں نے پہلے خطاب میں کسی بدلہ نہ لینے انتقامی کارروائی نہ کرنے کا عندیہ دے کر اچھی شروعات کی ہے،انھیں اس وقت بھی مقدمات کا سامنا ہے،ان حالات میں انھوں نے دوسرے ممالک کے دورے کرنے کا بھی اشارہ دیا ہے،انکی جماعت بطور خاص ماضی میں زیر عتاب رہی ہے،ان حالات میںوہ بیرون ملک حکام کا اعتماد حاصل کر پائیں گے،اگرچہ بطور وزیر اعلی ٰپنجاب وہ چین سے کچھ منصوبے لانے میںکامیاب رہے ہیں۔اس طرح سعودی حکام سے خاندانی دیرینہ تعلقات بھی رہے ہیں،امکان ہے کہ آسمان سے باتیں کرتی تیل کی قیمت کو زمین پرلانے کے لئے ان کا دورہ سود مند ہو گا، آپ نے پہلے خطاب میں امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلقات کا کہا ہے،لیکن جو گرَد سابقہ حکمران نے خفیہ خط کے نام پراُڑائی ہے اس کو بھی منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے یہ حساس معاملہ ہے جس کے دور رس نتائج ہوں گے۔
انہیں گارڈ آف آنرز لئے زیادہ دیر تو نہیں ہوئی لیکن ابھی سے وہ تنقید کی زد میں ہیں،تین کیمپ آفس مقرر کرنے پر انکے ناقدین یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک غریب ریاست اسکے بھاری اخراجات اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی،قوم امید رکھتی ہے کہ نو منتخب وزیر اعظم سامراجی عہد کے پروٹوکول سے نہ صرف نجات دلائیںگے بلکہ وہ خود وزراء سمیت اس کے سحر سے نکلیں گے،اگرچہ عوامی سطح پر نیب پہلے ہی حرف تنقید رہا ہے کسی بھی شخصیت کو سزا دلوانے میں ناکام رہا ہے،اس پر عدلیہ بھی تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اس کے باوجود بڑے بھائی کے لئے پاسپورٹ کا اجرا، مسٹر ڈار کے پاسپورٹ کی تجدید کے احکامات کو سوشل میڈیا پر سابقہ حکمرانوں کی عینک سے دیکھا جارہا ہے،موجودہ اپوزیشن انکے ہر قدم پر نگاہیں مرکوز کر ے گی اس لئے انھیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔البتہ نیشل اکنامک کونسل کا خیال قومی ضرورت ہے۔
قوم کی یہ خواہش تو ہے کہ وہ تمام افراد جو غیر منتخب ترجمان مگر سابق دور میں کلیدی عہدوں پر برا جمان رہے اگر ان کے دامن سے لپٹی کوئی بدعنوانی ہے تو اس کو ضرور منظر عام پر لایا جائے۔
تاہم پر امن طور پر انتقال اقتدار میں بڑا کردار عدالت عظمیٰ کا ہے،ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا گیا نیز ووٹنگ پر عمل درآمد کر ا کر ان تمام غیر آئینی قوتوں کو پیغام دیا کہ ریاستی معاملات چلانے کے لئے آئین پاکستان کو اولیت حاصل ہے اور کوئی ادارہ، شخصیت اس سے بالا تر نہیں ہے،قانونی حلقوں میں عدالت کے اس حکم نامہ کو خاصی پذیرائی ملی ہے،جس سے جمہوری اداروں کو بھی تحفظ کا احساس ہوا ہے۔جمہوری ملک کے لئے ایک بڑا سرپرائز بھی ہے۔