فرینکفرٹ: کہتے ہیں کہ حمل کے دنوں میں ماں جو سوچتی ہے اس کا اثر براہ راست پیٹ میں پلنے والے بچے پر بھی ہوتا ہے لیکن ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ حمل کے دنوں میں اگر ماں ذہنی تناؤ اور کشمکش کا شکار رہے تو اس کا پیدا ہونے والے بچے پر اثر بہت منفی ہوتا ہے اور بچہ اس تناؤ کی وجہ سے اپنی زندگی میں مختلف طرح کی بیماریوں کے ساتھ جلد بڑھاپے کا شکار ہوجاتا ہے۔
ایک جرمن ادارے یونیورسٹی آف ہیڈل برگ میں کی گئی تحقیق میں 319نئے پیدا ہونے والے بچوں اور ان کی ماں کا سٹریس لیول جانچنے کیلئے ان کے تھوک اور خون کے نمونے لئے گئے۔ سائنسدانوں نے دیکھا کہ جن بچوں کی مائیں دوران حمل ذہنی تناؤ کا شکار تھیں ان کے ’’ٹیلومیرز‘‘ چھوٹے تھے۔ماہرین کا کہناہے کہ ’’ٹیلومیرز‘‘ انسانی ڈی این اے پر ایسی چیز ہوتی ہے جو عمر کے بارے میں بتانے کے ساتھ لاحق ہونے والی بیماریوں کی خبر بھی دیتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی ڈی این اے ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوتا ہے اور کروموسومز ٹوٹنے سے ہماری جلد پر نشانات، یاداشت میں کمی، نظرکی کمزوری اور بڑھاپے کے ساتھ دیگر بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ ’’ٹیلومیرز‘‘انسانی کروموسومز کے کناروں پر ایک ڈھکن کی طرح لگے ہوتے ہیں اور یہ ڈی این اے کو ٹوٹ پھوٹ سے روکنے کے ساتھ انہیں مضبوط رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ جن میں یہ ’’ٹیلومیرز‘‘کم یا چھوٹے ہوں ان میں کروموسومز کے ٹوٹنے اور بیماریاں پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور نتیجہ کے طور پر یہ لوگ جلد بوڑھے ہوجاتے ہیں۔
سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ حمل کے دوران ماؤں کو چاہیے کہ وہ ذہنی تناؤ اور فرسٹریشن سے دور رہیں ورنہ اس کا اثر ہونے والے بچے کی عمر پر ہوگا اور ان کے ساتھ بچے کو بھی مہلک بیماریاں لاحق ہوجائیں گی۔