میں نے بنتا ہوا پاکستان نہیں دیکھا لیکن ٹوٹتے اور بگڑتے پاکستان کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ پاکستان کی ابتدائی مشکلات جو مطالعہ پاکستان میں پڑھی تھیں ابھی کل کی بات ہے دیکھتے دیکھتے پاکستان کی انتہائی مشکلات میں تبدیل ہوگئیں۔کبھی مہاجروں کا مسئلہ تھا اب مہاجرخود مسئلہ کھڑا کیے ہوئے ہیں۔تاجدار برطانیہ نے خزانے کی تقسیم منصفانہ نہیں کی تھی لیکن ہماری تو اپنی منتخب اور غیر منتخب قیادتیں اپنے ہی قومی خزانے پر شب خون مارتی رہی ہیں۔ ابتدا میں اداروں کا مسئلہ تھا اب ادارے خود مسئلہ بنے ہوئے ہیں وہ جمہوری ہوں یا آمری۔ہم نے پاکستان کسی جنگ میں نہیں جیتا تھا بلکہ یہ1946ء کے انتخابات کے جمہوری عمل کا نتیجہ تھا۔ابتداء میں خوراک ٗ روز گار ٗ بلیک مارکیٹنگ ٗ صوبہ پرستی اور نئی مملکت کو انفراسٹرکچر کے مسائل تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد ہماری بدقسمتی کا آغاز یوں ہوا کہ ہمارے جمہوری قائدین کے رویے آمرانہ ہوگئے اور جب آمر میسر آئے تو انہیں چند سال بعد یہ احساس ہونا شروع ہو گیا کہ وہ عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور مسائل جمع ہونے کے بجائے ضرب کھاتے رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح قوم کے متفقہ لیڈر تھے ٗ میں نے متفقہ اس لیے لکھا کہ جو متفق نہیں تھے وہ پاکستان بننے کے بعد اسے لوٹنے پر متفق ہو گئے۔ ریسرچ کی اس دنیا میں ٗمیں آج تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ قائد اعظم پر پی ایچ ڈی کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ اور اگر ہے بھی تو موضوع صرف ”قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل“ سے زیادہ کی اجاز ت نہیں۔یہ بھی اگر میری یاداشت درست ہے تو شاید پشاور یونیورسٹی میں تین چار پی ایچ ڈیز ہیں۔ ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح پر ریسرچ کے حوالے سے کیا خوف ہے میں جانتے ہوئے بھی بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن اس کا ایک نقصان بہرحال ہوگا کہ یہاں ہر دس بیس سال بعد ایک قائد اعظم ثانی پیدا ہو جاتا ہے حالانکہ قائد کی زندگی کے اہم پوشیدہ گوشے سوائے عمران خان کے کسی سے نہیں ملتے۔ آج ماضی کے مزاروں کی طرف دھیان جاتا ہے تو سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ ہم نے کس کس مزار پر دھمال ڈالی اور پھر اُن مزاروں کو مسمار کرکے اپنے نئے مزارات کی تعمیر میں جُت گئے۔آج بھی پاکستان میں ایک مزار دھوم دھام سے زیر تعمیر ہے۔
آج پاکستان کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی ایجنڈہ لئے میدان میں موجود ہیں۔ مستقبل کیلئے اُن کے پاس کوئی پروگرام نہیں ٗ ہم مصیبتوں کے پالے ہیں اور مصیبتوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اگر سیلاب نہ آئے تو ہم کلاشنکوف اٹھا لاتے ہیں ٗ کلاشنکوف میسر نہ ہو توپھر دم مارو دم یعنی ہیروین کو پاکستان کے ہر گھر میں پہنچا دیتے ہیں اور اگر پھر بھی بچ جائیں تو مسلکی جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں ہر دس سال بعد ایک پنگا لینے کی عادت ہے جس کی وجہ سے دس سال پنگے کی
تیاری اور دس سال اُس سے نمٹنے میں لگ جاتے ہیں اوریوں ہم نے اپنے75 سال ضائع کردیئے ہیں۔2005 ء کے زلزلے کا امدادی سامان ابھی لنڈے بازار میں بک رہا تھا کہ اللہ نے سیلابِ نوح ِثانی بھیج دیا اورہم پھر اقوام عالم کے سامنے بھکاریوں کی طرح کھڑے ہیں۔ کبھی ہمیں زلزلے اور سیلاب ایک قوم بنا دیتے تھے لیکن اس بار ہم اس سے بھی محروم رہے۔پاکستان کے چاروں صوبے پانی میں ڈوبے تھے لیکن سیاسی جماعتیں اپنے کھیل تماشوں میں غرقاب ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ یہاں وزیر اعظم کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں انہیں ابھی تک معلوم نہیں کہ صوبائی خود مختاری کے بعد اب صوبوں کے پاس مرکز سے زیادہ اختیارات ہیں۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنے قائد جناب عمران خان کے جلسوں کے انتظامات میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور سابق وزیر اعلیٰ بزدار جس کا اپنا آبائی علاقہ غرق ہو چکا وہ بھی سینٹرل پنجاب میں مٹر گشت کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ کشمیر کا وزیر اعظم سردار تنویرالیاس نشے میں دھت جلسے میں آ کر لوگوں کے سہارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولنے کی ناکام کوشش کرکے لوٹ جاتا ہے اورکسی کے کانوں پر جون تک نہیں رینگتی۔ چیئرمین تحریک انصاف کے میرٹ کا کیا میرٹ ہے میں 26 سالہ رفاقت کے باوجود سمجھنے سے قاصر ہوں۔ سیلاب زدہ علاقوں سے پانی اترنے کا نام نہیں لے رہا اور جہاں پانی اتر چکا وہا ں بیماریوں نے اپنا گھر کر لیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی سیلاب کے غمزدوں سے لا تعلقی انتہائی قابلِ نفرت فعل ہے لیکن شاید ہم نے نفرت کی سیاست کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ آج اگر ریاست مصیبت میں اپنے شہریوں کو تنہاچھوڑ رہی ہے تو پھر کل آپ اِن سے وفاداری کی تواقع نہ رکھیں۔ ان غریبوں کے تو بچے تک پانی میں بہہ گئے ہیں اورجو بچ گئے ہیں وہ مختلف بیماریوں کا یا تو شکار ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں لیکن جشن ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ عمران خان کا یہ دعویٰ کہ وہ پاکستان کا سب سے پاپولرلیڈر ہے درست ہو سکتا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ وہ کن کا پاپولرلیڈر ہے؟ سیلاب میں ڈوبے ہوئی عوام کا پاپولر لیڈر؟ دم توڑتے بچوں کا پاپولر لیڈر؟ بوند بوند صاف پانی کو ترستے بزرگوں کا پاپولر لیڈر؟ قطار در قطار سٹرکوں پر خیمہ زن بے آسرا مخلوق کا لیڈر؟ بے رحم سیلاب میں ڈوبتے انسانوں کی چیخ و پکار کا لیڈر؟ جوان بیٹیوں کو بے پردہ لیے کھلے آسمان تلے بیٹھے محمد ؐ کے امتیوں کا پاپولر لیڈر؟پاکستان کو سسک سسک کر دم توڑتے دیکھنے کی تمنائی ریاستوں کا لیڈر…… نہیں نہیں نہیں …… ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ آپ ظلم کرکے مظلوم شمار نہیں ہو سکتے۔میں نے لاکھوں کے مجمعے کو الطاف حسین کی ایک آواز پر خاموش ہوتے دیکھا ہے ٗ سانسوں کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی تھیں لیکن وہ پاپولر لیڈر آج اپنی زبان کی وجہ سے دیار غیر میں گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے۔کراچی جہاں اُس کے حکم کے بغیر پرندہ پر نہیں مارتا تھا اب نام لینے والا کوئی نہیں ٗ ہم محمد ؐ کے امتی ہیں اور ہروہ شخص جوسیلاب زدگان کیلئے کچھ کرسکتا ہے اگروہ نہیں کرتا تو وہ مرنے والوں کے قتل میں برابر کا شریک شامل ہے۔وہ بربادی لانے والے سیلاب سے بڑی سونامی ہے۔۔۔ لیکن یاد رکھیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سیلاب پاکستان کی ساری سیاسی گندگی اپنے ساتھ بہا لے جائے۔ سیاست وسائل تقسیم اور افراد جمع کرنے کا نام ہے یہاں وسائل جمع اورافراد تقسیم کیے جا رہے ہیں جو ایک خوفناک مستقبل قریب کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ رونامہ آزاد اشاعت 14 دسمبر 1971 ء کے سرورق پر جنرل ٹائیگر نیازی کا بیان نظر سے گزرا ”کٹ مریں گے ہتھیار نہیں پھینکیں گے“ لیکن عظیم نیازی صرف دو دن بعد 16 دسمبر 1971ء کو ہتھیار پھینک چکا تھا۔جب کوئی شخص ریاست کے جغرافیے میں کھڑے ہو کرریاستی اداروں کو للکار رہا ہو اور ادارے اُس کے سامنے اپنی بے بسی ظاہر کر رہے ہوں تو یاد رکھیں عوام کا اعتمادریاست سے اٹھ جاتا ہے اوراُس وقت سے توبہ کرنی چاہیے کہ وہ بہت بُرا وقت ہوتا ہے اورمیں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان ٹوٹتا اوربگڑتا دیکھا ہے۔