ایک گدھا درخت سے بندھا ہوا تھا اور وہ اپنی پوری تگ ودو سے اپنی مستیوں میں مشغول تھا۔ اچانک ایک شیطان کا ادھر سے گزر ہوا۔شیطان کو گدھے کی طمانیت راس نہ آئی اور شیطان نے اسے کھول دیا۔ گدھا کھیتوں کی طرف بھاگا اور کھڑی فصل کو تباہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔ جب کسان کی بیوی نے یہ ماجرا دیکھا تو اس نے غصے میں گدھے کو مار ڈالا۔گدھے کی لاش دیکھ کر گدھے کا مالک بہت غصے میں آگیا اور اس نے اپنی بندوق سے کسان کی بیوی کو گولی مار دی۔
کسان اپنی اکلوتی بیوی کی موت سے اتنا مشتعل ہوا کہ اس نے گدھے کے مالک کو گولی دے ماری۔ جب گدھے کے مالک کی بیوی نے اپنے شوہرِ نامدار کی موت کی خبر سنی تو غصے میں اس نے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے باپ کا فوراً بدلہ لیں اور کسان کا گھر جلا دیں۔
بیٹے شام کو گئے اور خوشی سے ماں کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کسان کے گھر کو آگ لگا آئے۔ انہوں نے یقین کر لیا کہ گھر کے ساتھ ساتھ کسان بھی جل گیا ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہواکسان زندہ بچ گیا۔ کسان واپس آیا اور گدھے کے مالک کی بیوی اور دونوں بیٹوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔یہ سارا کھیل کھیلنے کے بعد کسان نے توبہ کر لی اور شیطان سے پوچھا کہ یہ سب نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ تم نے ایسا کیوں کرایا؟ تم ایسے افعال کیوں سر انجام دیتے ہو۔ایسے بگاڑ سے تمہیں کیا ملتا ہے؟آخر تم چاہتے کیا ہو ؟بنی نوع انسان نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ہم اشرف المخلوقات ہیں؟
شیطان نے کہا میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں نے تو بس گدھا کھولا تھا لیکن آپ سب نے اپنا رد عمل ظاہر کیا بلکہ زیادہ رد عمل ظاہر کیا اور اپنے اندر کے شیطان کو فوراً باہر آنے دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بگاڑ در بگاڑ پیدا کر دیا۔آپ قتل و غارت پر اتر آئے۔ اب اگلی بار جواب دینے ، رد عمل ظاہر کرنے ، کسی سے بدلہ لینے سے پہلے رک جاؤ اور ایک لمحے کے لیے سوچو۔بہتر کیا ہے اور غلط کیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس شیطانی عمل کو عقل،علم اور فکر کی آنکھ سے کیوں نہیں دیکھتے ؟ہمارا شعور اور تحت الشعور ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتا ؟ہم عقل کی گھتیاں کیوں نہیں سلجھاتے؟ہم اپنے ضمیر کو کیوں نہیں جھنجھوڑتے؟ہم اپنے دماغ کی چھتوں سے معلق جالا کیوں نہیں اتارتے؟حیرت ہے ہم سوچنے پر بھی مجبور نہیں ہوتے؟ہر وقت ہمارے دماغ میں پیسے کی دوڑ،لالچ،حرص اور حسد کی پراگندگی،زمانے سے آگے نکلنے کا شوق،بنک بیلنس کا خمار اور مغرب کی تقلید سمائی ہوئی ہے۔ان خواہشات کی تکمیل کے لیے ہم ہر وہ حربہ اور ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں جو ہمارے اختیار میں ہے۔ہم اپنوں کا خون کرتے ہیں۔ہم دوستوں کو دغا دیتے ہیں۔ہم رشتہ داروں سے فراڈ کرتے ہیں۔حتیٰ کہ اپنے سگوں کی گردن پر چھری چلا دیتے ہیں۔عزیز و اقارب تک کو گروی رکھ دیتے ہیں۔یہ تو افرادی اور انفرادی بدیانتی اور بے ایمانی تھی جو ہم بڑی ایمانداری سے سر انجام دیتے ہیں مگر ہمارا اجتماعی رویہ اور ہماری اجتماعی بدیانتی کا چہرہ بھیانک ناک ہے۔ہم آخرت کے لیے اپنے سے جہنم خرید رہے ہیں اور بڑے سستے داموں خرید رہے ہیں۔پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم سے نہیں‘‘۔دوسری جگہ آپ ؐنے فرمایا’’رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘۔
اب آپ سوچیں کیا ہم ملاوٹ جیسی برائی سے مبّرا ہیں؟کیا ہم دودھ میں پانی اور پاؤڈر نہیں ملاتے؟ کیا ہم ہلدی اور سرخ مرچوں میں اینٹیں پیس کر نہیں ملاتے؟ ایسی کوئی ایک چیز جو دنیا فانی میں ایسی ہو جس میں ہم ملاوٹ نہیں کرتے؟اب آپ سوچیں کہ نبیؐ کی اس حدیث کو پسِ پشت ڈال کر کہاں کھڑے ہیں؟کس دین کے پیروکار ہیں؟اب آتے ہیں رشوت کی جانب؟رشوت کو ہم نے اپنا حق تصور کر لیا ہے۔ہم رشوت کو بڑی بے خوفی اور بے باکی سے چائے پانی کا نام دے رکھا ہے۔کوئی ادارہ اور کوئی محکمہ ایسا نہیں یہاں رشوت کو بھر پور عمل دخل نہیں بلکہ بغیر رشوت کے کوئی جائز کام ممکن نہیں۔اب ہم حدیث کی روح سے دیکھیں کہ ہماری مسلمانیت کہاں ہے؟ہم کیسے کلمہ گو ہیں؟ہم قیامت کے دن کیسے سرخرو ہوں گے؟کیا ہم منکر نہیں ہیں؟کیا ہم بدیانت نہیں ہیں؟کیا ہم آئین و قانون سے بے بہرہ نہیں ہیں؟آپ نے شیطان سے خود بچنا ہے۔آپ نے اپنا احتساب خود کرنا ہے۔آپ نے اپنی قبر میں اکیلے جانا ہے۔آپ نے اپنا حساب خود دینا ہے۔جن کے لیے آپ نے ملاوٹ کرنی ہے وہ آپ کے کام نہیں گے۔وہ آپ کے جمع کیے ہوئے مال پر عیاشی کریں گے اور عذاب آپ کی جان کو ہو گا۔جن کے لیے آپ نے رشوت کا مال اکٹھا کیا ہے انہوں نے آپ کی قبر پر فاتحہ بھی نہیں پڑھنی بلکہ چند مہینوں بعد آپ کی قبر کے نشان کو بھی بھول جائیں گے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ ظاہری شیطان اور اپنے اندر کے شیطان کا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیں۔شیطان کے چھوڑے ہوئے گدھے کو لگام ڈال کر صبر حوصلے اور احتیاط سے پکڑ کر باندھ دیں اور بلاوجہ کی قتل وغارت سے بچ جائیں۔ہم خود خیال رکھنا ہے۔کبھی کبھی شیطان ہمارے درمیان صرف گدھا چھوڑ دیتا ہے اور باقی کام ہم خود کرتے ہیں۔