۸ ستمبر ۲۰۱۵ ء کو قومی زبان اردو کے نفاذ کے سلسلے میں پاکستان کی عدالتِ عالیہ کے اہم فیصلے کے ضمن میں کئی اور نکات ہیں جو اس امر کاتقاضا کرتے ہیں کہ ان کو نمایاں کیا جائے مثلاً عدالتِ عالیہ نے دستورِ پاکستان کی شق نمبر پچیس (اے) کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس شق کی رْو سے ریاست کو اپنے ہر شہری کو پانچ سے سولہ برس کی عمر تک اس نہج پر تعلیم لازماً مہیا کرنا ہو گی جو قانون طے کرے گا۔ عدالت نے اقوامِ متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ بچے کو اپنی زبان ہی میں تعلیم دینی چاہیے کیونکہ یہی وہ زبان ہے جو بچہ اپنے گھر اور ماحول سے سیکھتا ہے اور اسی کے زیر سایہ پروان چڑھتا ہے۔ عدالت نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے لکھا کہ حکومت نے نہ صرف خواندگی کے لزوم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں بلکہ وہ بچے کی اپنی زبان میں تعلیم کے ضمن میں بھی بے نیاز ہے۔
یہاں مقتدرہ قومی زبان (اب ادارہ فروغِ قومی زبان) کی ۱۹۸۱ ء میں جاری کردہ ان سفارشات کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا جن میں اور باتوں کے علاوہ مقابلے کے امتحانات کے لیے اردو کو فوری طور پر اپنانے پر زور دیا گیا تھا نیز یہ سفارش بھی کی گئی تھی کہ پچاس نمبر کا عملی اردو کا لازمی پرچہ متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو کا دو سو نمبر کا اختیاری پرچہ بھی متعارف کرایا جائے۔ افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ صرف اشک شوئی کے لیے پراونشل سول سروس (موجودہ نام پراونشل مینجمنٹ سروس۔ پی ایم ایس) کے امتحانات میں پنجاب کی حد تک سو نمبر کا اردو کا پرچہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جو کرنے کا کام تھا کہ مقابلے کے امتحانات کا ذریعے اظہار اردو کو قرار دیا جائے، اْسے ہو ا میں اڑا دیا گیا۔ دراصل پبلک سروس کمیشن کے آقاؤں کو اندیشہ ہے کہ ایسی صورت میں انتظامی امور میں اردو کی بالادستی کے نتیجے میں ان کی چوہتر سال کی اشرافیت اور سیادت کے پاؤں لڑکھڑانے لگیں گے۔ آخر حاکمیت کا سرور آور نشہ بھی کوئی چیز ہے! کیسی بدقسمتی ہے کہ جنھیں عامتہ الناس کا دلسوز خادم ہونا چاہیے تھا، ان کو دی جانے والی ساری تربیت ، ان کے دل و دماغ میں حاکمیت راسخ کرنے کے لیے ہوتی ہے تاکہ بے بسوں، زیر دستوں اور نیم خواندہ لوگوں کو خاک چٹوا کر لذت اندوزی کا سروسامان کیا جائے، انھیں کبھی سر نہ اٹھانے دیا جائے۔
آئینِ پاکستا ن کا نفاذِ اردو کے سلسلے میں ۱۹۸۸ ء کا سال متعین کرنے اور بعض دردمند پاکستانیوں یا اداروں اور انجمنوں کی بار بار کی یاد دہانیوں کے نتیجے میں مجبور ہو کر کیبنٹ ڈویژن نے وزیر اعظم کی منظوری کے ساتھ ایک مراسلہ جاری کیا جس میں فوری اور قلیل مدتی اقدامات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ۶ جولائی ۲۰۱۵ ء کو جاری کیے گئے اس مراسلے کے چند نکات یہ تھے: وفاق کے زیر اہتمام کام کرنے والے ادارے سرکاری ہوں یا نیم سرکاری، تمام قوانین کا ترجمہ تین ماہ میں اردو میں شائع کریں۔ تمام عوامی جگہوں پر رہنمائی کے لیے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بورڈ تین ماہ کے اندر آویزاں کیے جائیں۔ یوٹیلٹی بل، ڈرائیونگ لائسنس نیز تمام محکموں کی دستاویزات اردو میں منتقل کی جائیں۔ پاسپورٹ میں تمام اندراجات انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شامل کیے جائیں نیز صدرِ مملکت، وزیراعظم اور تمام وفاقی اور سرکاری نمائندے اور افسر ملک کے اندر اور باہر اردو میں اظہار خیال کیا کریں اور اس کام کا مرحلہ وار آغاز تین ماہ میں کردیا جائے۔
یہ تمام تجاویز عمدہ تھیں اور ان سے پاکستان کے قومی تشخص کو ابھارنے میں بڑی مدد مل سکتی تھی مگر افسوس ان احکامات پر جو تعداد میں دس تھے ، صرف دو ایک ہی کو درخورِ اعتنا سمجھا گیا۔ بعض سرکاری اداروں کی چند دستاویزات اردو میں شائع ہوئیں، عوامی جگہوں پر بورڈ انگریزی اور اردو میں اکثر جگہ نصب ہو گئے۔ پاسپورٹ میں ایک دو جگہوں کے سوا سارے اندراجات انگریزی ہی میں رہے۔ یوٹیلٹی بل بھی سوائے چند اندراجات کے اردو کی راہ تک رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار احکامات کی بجاآوری میں کتنے پرجوش ہیں حال آنکہ قانون کی اطاعت سے اختیارات محدود نہیں ہوتے ، وسیع ہوتے ہیں اور افراد اور قوموں کو نئی زندگی ملتی ہے۔ اقبال نے کس قدر درست کہا تھا:
در اطاعت کوش اے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار!
(اے غافل، اطاعت اختیار کر کیونکہ اپنے اوپر جبر کرنے سے اختیار پیدا ہوتا ہے)
عدالتِ عالیہ نے آرٹیکل دو سو اکاون کے حوالے سے ایک پتے کی بات یہ لکھی کہ نفاذِ اردو کے سلسلے میں مذکورہ آرٹیکل کی پابندی محض قانون کی پابندی کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا براہِ راست تعلق پاکستانی عوام سے ہے۔ عدالت نے اس ضمن میں پاکستان کے دو صوبوں شمال مغربی سرحدی صوبے ( اب خیبر پختون خوا) اور بلوچستان میں ۱۹۷۲ ء میں (اور بلوچستان میں مکرراً ۲۰۰۴ میں ) اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس کے نتیجے میں دونو صوبوں کے سرکاری ملازمین کی خود اعتمادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ دونو صوبوں کی کارگزاری بہتر ہوئی۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک گیارھویں سکیل کا ملازم اردو سے واقفیت اور مانوسیت کے باعث اردو میں تحریری تجویز پیش کر کے آگے بھیجنے کے قابل ہوسکا۔ یہ وہ کام ہے جو سترھویں سکیل کا ایک سیکشن افسر انگریزی زبان میں کمتر معیار سے کر پاتا ہے کیونکہ انگریزی بہرحال ایک غیر ملکی زبان ہے۔
درج بالا نکات کی توضیح کے بعد عدالتِ عالیہ نے نفاذِ اردو کے لیے حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ آرٹیکل دو سو اکاون کے احکامات کو فوراً نافذ کیا جائے۔ تین ماہ کے اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات اردو میں لیے جائیں۔ وہ عدالتی فیصلے جن کا تعلق عوامی مفاد سے ہو، لازمی طور پر اردو میں ترجمہ کیے جائیں۔ سرکاری محکمے عدالتی مقدمات کے جواب اردو میں پیش کریں تاکہ شہری موثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کرا سکیں۔
اس ماہِ ستمبر کی آج کی تاریخ تک عدالتِ عالیہ کے مذکورہ فیصلے کو پورے چھ برس اور چھ دن ہو چکے مگر سابقہ اور موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں چپ سادھ رکھی ہے۔ اِدھر ہمارے بعض دانشوروں کا حال یہ ہے کہ ان کے نزدیک انگریزی جیسی علمی زبان کے مقابلے میں اردو علمی زبان نہیں بن سکی۔ ہمارے ایک معاصر نے "اردو یا انگریزی" کے زیر عنوان اپنی تحریر میں بظاہر اردو سے محبت جتاتے ہوئے انگریزی کی ملک میں بالا دستی کا جواز پیدا کرنے کا عذرِ لنگ تراشا ہے۔ ان کے نزدیک علم صرف سائنس اور ٹیکنالوجی میں منحصر ہے۔ اردو میں تراجم کی روایت کمزور اور نئے علم کا قحط ہے لہٰذا نئی نسل نے اپنا مستقبل انگریزی سے وابستہ کر لیا ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ بھائی کیا عْمرانی اور بشری علوم ، علم کی صف سے خارج ہیں؟ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مثبت فوائد اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے اور بڑی تلخ کہ عْمرانی اور بشری علوم کے فیض رساں سائے سے محروم ہو کر سائنس اور ٹیکنالوجی ہمارے عہد میں اس قدر ہلاکت خیز ہو گئی ہے کہ اس نے نوعِ انسانی اور ہمارے سیارے کے وجود پر ایک بڑا سوالیہ نشان قائم کر دیا ہے۔ موصوف جس اشرافیہ کی انگریزی دوستی کی درپردہ حمایت میں دْبلے ہو ئے جارہے ہیں، وطن عزیز میں اس کا تناسب دو فیصد سے زیادہ نہیں۔ انھیں ملک میں نئے علم کا قحط تو نظر آتا ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ اس قحط اور فکری افلاس کا بڑاسبب اسی انگریزی زبان کی بالا دستی ہے جس کو سیکھتے سیکھتے نسلوں کی نسلیں برباد ہو گئیں ، انگریزی پھر بھی انھیں نہ آسکی۔ لہٰذا وہ رٹْو طوطے بن گئے۔ وہ چْوری چْوری کی رٹ لگانے لگے لیکن چْوری کی معنویت اور ماہیت سے آگاہ نہ ہو سکے۔ انگریزی زبان ان کے لیے حجابِ اکبر بن گئی اور ان کے تخلیقی سوتے خشک ہو گئے۔ کاش انگریزی کے وکیلِ صفائی کو معلوم ہوتا کہ بدیسی زبانوں میں علوم کی تحصیل سے عمر عزیز کا بڑا حصہ صرف ان کے سیکھنے ہی میں صرف ہو جاتا ہے۔ موصوف کی اس سوختہ نَفَس وکالت پر میر کا یہ مشہور شعر یاد آئے بغیر نہیں رہ سکتا:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب / اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
حق یہ ہے کہ تخلیق ِ علوم کا سوتا اور اکھوا اپنی قومی زبان ہی سے پھوٹتا ہے۔ انیسویں صدی میں سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم اسی اردو زبان میں ہوتی رہی۔ دلی کالج، رڑکی انجینئرنگ کالج اور کامعہ عثمانیہ اس کے بہترین نظائر کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ رہا اردو میں علمی تراجم کا قحط تو یہ بھی درست نہیں۔ اردو میں اب تک بہت بڑی تعداد میں علمی کتابوں کے تراجم ہو چکے ہیں۔ جامعہ عثمانیہ اور انجمن ترقی اردو نے تراجم کی سیکڑوں کتابیں چھاپیں۔ خود مجلس ترقی ادب نے عمرانیات، بشریات، سائنس، فلسفہ، طب، معاشیات، نفسیات اور تاریخ و سیاسیات پر ایک سو کے قریب نہایت معیاری کتابیں اردو ترجموں کی صورت میں شائع کیں۔ پھر جس زبان میں تقریباً تمام عْمرانی علوم اور دفتری زبان کی اصطلاحات ترجمہ ہو چکی ہوں، متعدد سائنسی اصطلاحات بھی اردو میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکی ہوں، جس میں امہاتِ کتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہو، جس کے داستانی ادب تک میں علوم و اصطلاحات کا بڑا سرمایہ ہو، جس میں دفتری مراسلات کا اچھا خاصا خزانہ موجود ہو اور جس زبان کی پشت پناہی کے لیے عربی اور فارسی زبانوں کے علمی اور اصطلاحاتی ذخائر موجود ہوں، اسے علم کے معاملے میں کیسے پسماندہ اور کوتاہ قد کہا جاسکتا ہے؟ اگر آج اخلاص اور عزم صمیم کے ساتھ پورے ملک میں اردو کا نفاذ کر دیا جائے اور ساتھ ہی یکساں نصابِ تعلیم کا بلا استثنا تمام سرکاری اور انگریزی میڈیم اداروں کو پابند کر دیا جائے تو یقین ہے کہ جلد ہی ملک میں سچے، نافع اور تخلیقی علم کی کھیتیاں لہلہانے اور بار لانے لگیں گی۔