اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے کہا ہے کہ بدنام زمانہ پولیس افسر سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) کو لگایا گیا اور تصویریں بنوائی گئیں.
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ موٹروے واقعے پر ہر آنکھ اشک بار ہوئی۔ واقعے پر سب کے سر شرم سے جھک گئے۔ شکر کی بات ہے کہ آج موٹروے واقعے کا مجرم گرفتار ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس بحث پر الجھی ہوئی تھی کہ موٹروے پر کس کا کنٹرول ہے۔ موٹروے واقعے پر سی سی پی او کا بیان شرمناک ہے۔ پولیس افسر کے بیان سے پوری قوم کے دل زخمی ہوگئے۔ پولیس افسر نے بیان دیا کہ پیٹرول نہیں تھا تو رات کے اندھیرے میں کیوں نکلی۔ کوئی ذی شعور شخص اس طرح سوچ بھی نہیں سکتا۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اداروں کی رپورٹ کہہ رہی تھی یہ پولیس افسر کرپٹ ہے۔ ڈھٹائی کےساتھ اس پولیس افسر کو سی سی پی او تعینات کیا گیا۔
شہبازشریف نے کہا کہ سی سی پی او لاہور کو جس نے لگایا وہ سینہ تان کرکھڑے تھے کہ ہم نے لگایا۔ موٹروے واقعے پر اپوزیشن لیڈر شپ نے ذمہ داری کا کردار ادا کیا۔موٹروے واقعے پر سیاسی پارٹیوں نے کوئی سیاست نہیں کی۔
شہباز شریف نے کہا کہ زینب واقعے کو پی ٹی آئی نے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ زینب کیس میں ذمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا گیا تھا۔ ہماری حکومت نے 1300 ا فرادکےڈی این اےٹیسٹ کیے تھے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ڈولفن پولیس فورس اور فرانزک لیب نوازشریف کے دور میں بنا۔ فرانزک لیب دنیا کی سب سے بڑی دوسری لیب ہے۔ نوازشریف کے دور میں پولیس ریفارمز کی گئیں۔ پنجاب میں پولیس افسروں کی تعیناتیاں 95 فیصد میرٹ پر ہوتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کمیٹی تشکیل دی جائے کہ موٹروے پر تعیناتی میں تاخیر کی کیا وجہ تھی۔ اگر کسی نے بدکلامی کی گئی تو پھر مجھ سے گلا مت کیجیئے گا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ موٹر وے کے افسوسناک واقعہ پر پوراملک غمگین ہے۔ افسوس ایوان میں مجرموں کو سزا دینے پر بحث نہیں ہورہی ہے۔ اپوزیشن میں 2 قسم کی بحث ہورہی ہے۔
وفاقی وزیرمراد سعید نے کہا کہ ایوان میں اس بات پر بحث نہیں ہورہی ہے کہ درندوں کو کیسے عبرت کا نشان بنایاجائے۔ درندوں کو سزا دلوانے پر کوئی بحث نہیں ہورہی ہے۔ موٹروے واقعے پر جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ ہم نے دو قسم کی بحث شروع کررکھی ہے۔ بحث ہورہی ہے کہ سانحہ موٹر وے پر مراد سعید مستعفی ہوجائے۔ دوسری بحث یہ ہورہی ہے کہ پنجاب فرانزک لیب کس نے بنائی۔ میں اس لیے ذمہ دار ہوں کیوں کہ میں اس ایوان کا حصہ ہوں۔ یہ واقعہ موٹر وے پر نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 130 پر کی گئی کال میں نے خود سنی۔ 130 پر کال کی گئی تو اس میں نہیں کہا گیا کہ یہ ہماری حدود نہیں۔ جن کی ذمہ داری تھی ان کے ساتھ رابطہ کرایا گیا تھا۔ یہ واقعہ جہاں پر بھی ہوا میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ خدا کے لیے یہ بحث نہ کریں کہ لیب کس نے بنائی اور مراد سعید کہا ں ہے۔ موٹروے واقعے کا میں ذمہ دار ہوں، ریاست ذمہ دار ہے۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ موٹروے پرخاتون سے زیادتی اندوہناک واقعہ ہے۔ ایسےواقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائےکم ہے۔
عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ مراد سعید نے کہا کہ بحث کسی اور چیز پرہورہی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ عوام کواعتماد نہیں دلارہے ہیں۔ سی سی پی اولاہور نے کہا کہ شام کے بعد پاکستان محفوظ جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک آرڈیننس نکال دیں کہ شام 6 بجے کے بعد خواتین باہر نہ نکلیں۔
اس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے عبدالقادر پٹیل سے پوچھا کہ سرے عام پھانسی دینے پر آپ کیا کہتے ہیں؟ اس صورتحال میں سرعام پھانسی نہیں ہوگی تو معاملہ حل نہیں ہوگا۔
عبدالقادر پٹیل نے جواب دیا کہ قانون میں ہر جرم کی سزا موجود ہے۔ موٹروے کا ذکر آرہا تھا او ر وفاقی کابینہ 3 دن سے غائب تھا۔ صرف باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما مفتی عبدالشکور نے کہا کہ ہمیں موٹر وے جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ عدالتی نظام میں سقم موجودہے۔ ریاست کواپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ قوانین ہیں لیکن عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ جو لوگ خواتین کی عزت لوٹتے ہیں،اس کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ اسلام نے بھی سخت سزا تجویز کی ہے۔
رہنما جے یوآئی ف مفتی عبدالشکور نے کہا کہ کل پنجاب میں زیادتی کے10 واقعات رپورٹ ہوئے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان مسل لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ اسلام نے کہا ہے کہ اس قسم جرائم کی سزائیں سرعام دیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی پانچ سالہ بچی مروہ کا واقعہ ہو یا موٹروے زیادتی کا واقعہ، یہ بہت افسوسناک ہے۔ جب بچوں کے سامنے والدین کو مارا گیا تو مجرموں کو سزا نہیں دی گئی۔ جب سزانہیں دیں گے تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ چاردیواری میں پھانسی نہ دیں، سرعام پھانسی دیں تاکہ نشان عبرت ہو۔ مغرب میں ہراسانی پر بھی سخت سزا ہے۔ مغرب میں ایک شخص کو ہراسانی پر 25 سال سزا ہوئی۔
اس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سوال کیا کہ کس ملک میں سزادی گئی؟ خواجہ آصف نے جواب دیا کہ امریکہ میں ہراسانی کے واقعے پر 25 سال سزادی گئی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جب تک سزاوَں پرعملدرآمد نہیں ہوگا، جرائم کم نہیں ہوں گے۔ این جی اوز سے متعلق ہم نے قانون سازی کی، لیکن عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ صرف قانون بنانا نہیں، اس پرعملدرآمد بھی کروانا ہے۔
ن لیگی خواجہ آصف نے کہا کہ صرف قراردادیں پاس کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اس ایوان نے بڑی قراردادیں پاس کیں۔ اگر قانون پرعملدرآمد ہوتا تو پولیس افسر ایسا بیان کیوں دیتا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ریاست مدینہ میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ خاتون کوکوئی ہاتھ لگا سکے۔ ریاست مدینہ میں خلفائے راشدین سے کرتے سے متعلق سوال ہوئے۔ مانتے ہیں خیبرپختونخوا میں ناصر درانی نے پولیس ریفارمز کیے۔ ناصردرانی کو پنجاب میں 2 ماہ بھی کام نہیں کرنےدیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اوکاڑہ میں بچوں کے سامنے والدین کو گولی ماری گئی۔ اوکاڑہ کیس میں کوئی انصاف نہیں ہوا۔ قانون حرکت میں نہیں آتا تو ایسے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پولیس افسر کے بیان نے ہم سب کو شرمندہ کیا۔ پولیس افسر نے ذمہ داری متاثرہ خاتون پر ڈالی۔