اسلام آباد :پاکستان کی معروف براڈکاسٹر ثریا شہاب کا اسلام آباد میں طویل علالت کے بعد 75 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا ، وہ کچھ سالوں سے الزائمر کا شکار تھیں، جمعے کی صبح انہوں نے پیٹ میں درد کی شکایت کی جس کے بعد ان کا بیٹا انہیں ایک نجی ہسپتال لے جانے لگا تاہم پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے دم توڑ دیا
۔انہیں اسلام آباد کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا، ان کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، ان کے لواحقین میں دوبیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔
ثریا شہاب کا شمار ملک کی ابتدائی نیوز کاسٹرز میں کیا جاتا ہے , انہوں نے صحافت اور پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، جبکہ وہ پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی بھی کررہی تھی تاہم کینسر کی تشخیص کے بعد انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔
ثریا شہاب نے اپنے براڈکاسٹنگ کیریئر کا آغاز 60 کے عشرے میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ کیا، بعدازاں وہ ایران گئیں اور وہاں ریڈیو ایران زاہدان نام کا ایک شو کیا جو ان کی کامیابی کا سبب بنا۔اس شو کا آغاز 'آواز کی دنیا کے دوستوں یہ ریڈیو ایران زاہدان ہے' لائن سے ہوتا تھا اور سامعین گھنٹوں گھنٹوں اس شو کے شروع ہونے کا انتظار کرتے۔
1973 میں وہ واپس پاکستان آئیں اور پھر سے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کا حصہ بن گئیں، جہاں وہ خبریں پڑھا کرتی تھی، بعدازاں 1980 میں وہ بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ہوکر لندن منتقل ہوگئیں، 90 کی دہائی میں انہوں نے جرمن نشریاتی ادارے کے لیے بھی کام کیا۔
ثریا شہاب کے بیٹے محمد خالد کا ڈان سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی والدہ شاعری کی ایک کتاب بھی تحریر کررہی تھی تاہم اپنی طبیعت کے باعث اسے مکمل نہیں کرسکیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور آپریشن کے بعد وہ کئی اور سنگین صحت کے مسائل میں مبتلا ہوگئیں جس میں سے ایک الزائمر کی بیماری بھی تھی ، محمد خالد کے مطابق ان کی والدہ نے ان کے ہاتھوں میں دم توڑا۔