اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پانچ ماہ بعد آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پہلے اختلافی نوٹ تحریر کر چکے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کو شمار کرنا جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے پر اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کرتے ہیں۔صدارتی ریفرنس پر اٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات وکلاء محاذ کیس میں سپریم کورٹ پہلے بھی دے چکی ہے ۔وزیر اعظم یا وزیراعلیٰ پارلیمانی پارٹی میں اعتماد کھو بیٹھے تو اسے عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رکن اسمبلی کا پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنا پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے تباہ کن ہے۔ ارکان اسمبلی کے اظہارِ رائے کے حق کو وکلا محاذ کیس میں بھی تحفظ دیا گیا ہے۔ ارکان اسمبلی ووٹ کے معاملے پر پارٹی کے اندر بحث، اتفاق یا عدم اتفاق کر سکتے ہیں، جب معاملہ ووٹ ڈالنے کا آئے گا تو پھر صورتحال مختلف ہوگی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ ڈالتے وقت آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ دلیل دی گئی کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے سے پارلیمانی پارٹی میں آمریت کو فرغ ملے گا تاہم فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آمریت کو فروغ ملنے کی دلیل سے ہم متفق نہیں ۔