پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے گجرات کے جلسے میں مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق بیان کو اس بنا پر مسترد کردیا ہے کہ مودی کا بیان جھوٹ پر مبنی اور گمراہ کن ہے۔ اس بیان سے ثابت ہوگیا کہ بھارتی قیادت مقبوضہ کشمیر کے زمینی حقائق سے مکمل طور پر لاعلم اور بے خبر ہے۔
جموں وکشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازع ہے اور یہ تنازع 1948 سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت نے کشمیر پر قبضہ کررکھا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گجرات میں منعقد ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح ’مسئلہ کشمیر کو حل‘ کردیا۔بھارتی میڈیا کی جانب سے نریندر مودی کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ میں سابق بھارتی کانگریس رہنما سردار ولبھ بھائی پٹیل کے نقش قدم پر چل رہا ہوں، میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی سرزمین کی اقدار رکھتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے کشمیر کا مسئلہ حل کیا اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کو حقیقی معنوں میں خراج عقیدت پیش کیا۔
دفتر خارجہ نے بھارتی وزیراعظم کے تنازع یکطرفہ طور پر حل کرنے کے دعوے کو فریب پر مبنی قرار دیا اور بھارتی قیادت سے کشمیری عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کیا۔ دفتر خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جموں و کشمیر کے تنازع کا واحد حل کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظورہ شدہ قراردادوں کے مطابق آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے اور حق خودارادیت کے استعمال کی اجازت دینے میں ہے۔
بھارت 9 لاکھ قابض فوج کے ہمراہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بھیانک کارروائیوں میں ملوث ہے مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے تحت کشمیریوں کو حق رائے دہی دینے میں مضمر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے بھارت کے قابل مذمت قبضے کی بہادری کے ساتھ مزاحمت جاری رکھی جب کہ بھارت نے بدنیتی پر مبنی آبادیاتی تبدیلیوں اور اسلحہ کے ذریعے اپنا وادی پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ بھارتی قیادت کے مقبوضہ خطے کے دورے اور وادی میں معمول کے مطابق صورتحال ظاہر کرنے کے لیے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز غیرقانونی بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کے جذبے کو پست کرسکتا ہے اور نہ وہ ان ہتھکنڈوں سے دنیا کو دھوکا دے سکتا ہے۔
پاکستان نے مسلسل عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازع کو حل کرنے اور مقبوضہ وادی میں جاری انسانیت سوز بھارتی مظالم کے حوالے سے اپنا کردار اور ذمہ داری ادا کرے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم منصوبے کے ساتھ ساتھ معصوم کشمیریوں پر وحشیانہ جبر کرنے پر بھی بھارت کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ پاکستان انسانی حقوق کی تنظیموں سے مقبوضہ وادی میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرنے اور بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو فوری طور پر واپس لینے کے اپنے مطالبے کو دہراتا ہے۔ اگر بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر پر ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں مسائل حل کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کو اپنی اپنی انا کے خول سے نکل کر کام کرنا ہوگا۔ دونوں ملکوں کو قربانی کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ سب سے پہلے تو بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑ دے۔ ظاہر ہے جب دوفریقوں میں سے ایک فریق انتہا پر رہے تو کسی مسئلے کا سلجھاؤ نہیں ہوتا بلکہ فضا میں تناؤ مزید بڑھتے رہنے سے ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب دونوں فریق ایٹمی اور میزائلی قوتیں ہوں تو ایسے ٹکراؤ کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی اور بربادی کے حجم کا تصور بھی مشکل ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتی ہیں لیکن بھارت نے آج تک ان قراردادوں پر عمل نہیں کیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے مذاکرات کی راہ اختیار کی لیکن بھارت نے یہ راستہ بھی سنجیدگی سے اختیار نہیں کیا۔ اس نے ہر بار مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔
جہاں تک مکمل فتح کا تعلق ہے تو وہ آزادی کا دوسرا نام ہے اور جب تک کشمیر کی سر زمین پر بھارت کا ایک سپاہی بھی موجود ہے، کشمیری آزاد نہیں ہو سکتے۔ اس لیے بھارتی فوج کو ہیچ ثابت کرنا صرف ایک محاذ پر کامیابی ہے اور اس مقام پر کھڑے ہو کر ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت نے کشمیر میں بڑے مضبوط پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وہ ایک طاقتور ملک ہے اس کے پنجے اکھاڑنے، اس کی طاقت کا گھمنڈ توڑنے کیلئے کشمیریوں کو ابھی کئی صحراؤں سے گزرنا ہے۔
بھارت پر واضح رہنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیئے بغیر جمہوریت کا چمپئن نہیں بن سکتا۔ بھارت کو جلد یا بدیر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنا ہوگا۔ جن میں یہ طے کیا گیا ہے کہ ایک غیر جانبدار، منصفانہ اور شفاف استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالا جائے۔ بھارت ان قراردادوں کو قصہ پارینہ قرار دے کر اس مسئلے کے حل سے پہلو تہی کر رہا ہے۔ بھارت کا اصرار ہے کہ اس مسئلے کو طے کرنے کے لیے دوطرفہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ بات شملہ معاہدے کا حصہ بھی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت اول تو مذاکرات کی میز پر بیٹھتا ہی نہیں یا پھر مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔